اسلام آباد(نیوز ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف کی حکومت معاشی چیلنجزز سے نمٹنے کی بھرپور کوشش کر رہی ہے ملکی حالات آہستہ آہستہ بہتری کی جانب گامزن ہیں اسی طرح پاکستان کے حکمران عمران خان دنیا بھر میں کشمیریوں کی آواز بنے ہوئے ہیں اور کشمیر کے مسئلے پردنیا کے مردہ ضمیر کو جگانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ عمران خان
کشمیر کے سفیر کا کردار بھر پور طریقے سے ادا کر رہے ہیں۔انھوں نے نیویارک ٹائم میں اپنے ایک مضمون میں نامور کالم نگار عبدالقادر حسن اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلہ پر دنیا کی طاقتوں نے اپنا کردار ادا نہ کیا تو کشمیر پر جنگ کے اثرات سے وہ بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ یعنی کشمیر پر ایٹمی جنگ کی صورت میں اس خطے میں جو تباہی آئے گی اس کے بعد کسی بھی ملک کابھارت کے ساتھ تجارتی مفاد اپنی موت آپ مر جائے گا۔ یعنی اس وقت جو ممالک اپنے تجارتی مفاد کو سامنے رکھ کر بھارتی خوشنودی کے لیے کشمیری مسلمانوں کی حمائت سے گریز کر رہے ہیں وہ اس جنگ کے اثرات سے محفوظ نہیں رہیں گے۔عمران خان نہایت دانشمندی سے کشمیر کا مقدمہ لڑ رہے ہیں ،وہ بے حوصلہ نہیں ہیں، وہ لڑنا جانتے ہیں، ان کے پیچھے پوری پاکستانی قوم یک زبان ہو کر کھڑی ہے۔ یہی وہ طاقت ہے جس کے سہارے پاکستان کی حکومت کشمیر پر اپنا واضح موقف دنیا بھر کے سامنے ڈٹ کر پیش کر رہی ہے۔ یکجہتی کشمیر کے موقع پر پاکستان بھر میں قوم والہانہ وار کشمیریوں کے حمائت میں جس طرح باہر نکلی ہے اس سے
حکومت کے اس موقف کو مزید تقویت ملی ہے کہ پاکستانی قوم مشکل کی اس گھڑی میں اپنی حکومت کے ساتھ ہے۔برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ میں مسلمانوں اور ہندوئوں کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ جنوبی ایشیا میں مسلمان سات آٹھ سو برس کی حکمرانی کے بعد زوال پذیر ہوئے تو وہ اپنے سے طاقت ور انگریزوں کے غلام تو بن گئے مگر انھوں نے یہ غلامی دل سے کبھی قبول نہ کی۔ اس دور کے علماء اور مسلم مفکرین نے برطانوی سامراج کے خلاف جدو جہد کی اور دنیا بھر میں جہاں بھی مسلمانوں کو غیر مسلموں کے ہاتھوں تکلیف پہنچی، ان غلام مسلمانوں نے ان کی عملی مدد میں کوتاہی نہیں کی۔ لیکن آج ماضی کے غلام مسلمان اپنے سے امیر اور آزاد مسلمانوں کی جانب سے ہمدردی کے چند لفظوں کو ترس رہے ہیں۔سیاست کے ساتھ اسلامی علوم میں جو تحقیق ہندوستان میں کی گئی اس کی مثال نہیں ملتی۔ ہندوستان کے مسلمان علماء اور محققین کو اسلامی دنیا نے تسلیم کیا اور ایک ضرب المثل دنیا میں مشہور ہوئی کہ قرآن عرب میں نازل ہوا، مصر میں پڑھا گیا ، استنبول میں لکھا گیا اور ہند میں سمجھا گیا۔ ہندوستان کے مسلمانوں کی اسلامی اور قرآنی علوم سے آشنائی پر اس سے بڑا خراج تحسین اور کیا ہو سکتا ہے۔ ہند کے مسلمان
غلام ضرور تھے مگر بے حد جاندار، غلامی ان کے اندر سے اسلامی احساس اور حمیت کا جوہر ختم نہ کر سکی چنانچہ پوری اسلامی دنیا کسی مادی امداد یا دینی فہم کے لیے ہند کے مسلمانوں کی طرف دیکھتی رہی ۔جب ان مسلمانوں نے اپنا آزاد ملک قائم کیا تو دنیا میں اس اسلامی نظریاتی ملک کا اس قدر غلغلہ برپا ہوا کہ مصر کے شاہ فاروق نے طنزاً اور حسداً کہا کہ اسلام تو 1947 میں نازل ہوا ہے لیکن پوری اسلامی دنیا کے عوام نے پاکستان کے قیام کا زبردست جذباتی اور مخلصانہ خیر مقدم کیا اور اس ملک کو اپنا بازوئے شمشیر زن سمجھا۔ اپنے قیام کے پچاس برس بعد اس اسلامی نظریاتی ملک نے ایٹم بم بنا کر مسلمانوں کی ان امیدوں کو پورا بھی کر دیا ۔ایک طرف تو اسلامی دنیا پاکستانیوں کی طرف مڑ مڑ کردیکھتی تھی لیکن دوسری طرف اس اسلامی پاکستان کی قیادت ان لوگوں کے ہاتھ میں آگئی جن کا ناموں کے سوا اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا۔ انگریزوں نے تو انھیں آزاد کر دیا تھا مگر انھوں نے آزاد ہونے سے انکار کر دیا تھا اور انگریز کے پروردہ اور ان کی باقیات پاکستان کے حکمران بن گئے۔ اس قماش کے لیڈروں کے تحت پاکستان کیا کوئی آزاد اسلامی ملک بن سکتا تھا، بلکہ یہ
ملک تو اپنی جغرافیائی وحدت بھی برقرار اور قائم نہ رکھ سکا۔ ان لوگوں نے پاکستان کی جو گت بنائی اس کو دیکھتے ہوئے آج ڈر لگتا ہے۔دیار ہند کے مسلمان حیرت انگیز حد تک ایک جاندار قوم ہیں ان کی بڑی تعداد ہندوئوں کے ہندوستان میں ہے لیکن کشمیر میں بھارت کے خلاف باقاعدہ جنگ لڑ رہی ہے ۔ بنگلہ دیش جسے ہندوستان نے آزادی دلائی تھی اپنی علیحدگی کے بعد پاکستان کے حکمرانوں اور بھارت کی قوم سے نفرت کرنے لگا اور باقی ماندہ پاکستان نے بخدا روسی سامراج کے خلاف ایسی جنگ لڑی کہ اسے پسپا ہوتے ہوئے سامراج کو ماسکو میں بھی پناہ نہ ملی اور یہ سلطنت تاریخ کی قبر میں دفن ہو گئی۔ایسا تماشہ کبھی نہیں ہوا کہ ایک ہی نسل نے یہ سلطنت بنتی اور پھر ختم ہوتے ہوئے دیکھ لی ۔ پاکستانیوں اور افغانوں کا یہ مشترکہ کارنامہ اتنا حیران کن تھا کہ مادی اعتبار سے کمزور پاکستان اور افغانستان کے ہاتھ پاؤں پھول گئے اور پاکستانی تو آج تک اس کارنامے کو اپناتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ احساس کمتری انھیں پریشان رکھتا ہے۔پاکستان کے اندر آزادی کے بعد عوام اور حکمران طبقے میں جنگ شروع ہو گئی ۔ حکمرانوں کا چونکہ عوام سے کوئی تعلق نہیں رہا اس لیے اس ملک کے استحکام کی کوئی
سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ لیکن اس کے باوجود عوام کے اندر ایک غیرت مند زندگی باقی رہی۔ پاکستان کے بقاء کی ضمانت ایٹمی پروگرام کو ختم کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کی جانب سے کئی حربے استعمال کیے گئے لیکن یہ غیرت مند قوم ہمیشہ ان عالمی طاقتوں کے سامنے کھڑی ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ یہ قوم زندہ ہے اسی طرح پاکستانی قوم مرتے مر جائے گی مگر بھارت کی بالادستی قبول نہیں کرے گی۔بھارتی بالا دستی قبول کرنے والے ماضی کے حکمرانوں نے طاقتور ملک کو کمزور بنانے کی کوشش کی ۔ یہ ملک غریب نہیں تھا اسے لوٹ مار کر کے غریب بنا دیااور یہ سب کچھ غلط رو قیادت نے کیا ہے ۔ یہ قوم ایک اچھی اور سچی قیادت کی منتظر ہے جس دن اس زندہ قوم کو صحیح قیادت مل گئی یہ نہ کمزور رہے گی اور نہ غریب رہے گی اسے اپنا تعارف بھی مل جائے اور اپنی شناخت بھی اور پھر کسی بھارت کو یہ جرات نہیں ہو گی کہ وہ دن دہاڑے کشمیر پر قبضہ کرے اور کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے، زندہ اور جاندار قوم نے کشمیر کے بارے میں فیصلہ دے دیا ہے ۔انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب کشمیر آزاد ہو گا.