میضر عزیز بھٹی کو ئی اانجان نام نہیں یہ وہ نام ہے جن سے دشمن آ ج بھی ڈ رتے ہیں ۔1965کی جنگ میں عظیم کارنامہ سر انجام دے کر جامِ شہادت نوش کرنے والے میجر راجہ عزیز بھٹی ہمیشہ اپنے ساتھ ایک چھوٹی سی ڈائری رکھتے تھے۔میجر عزیز بھٹی کے بیٹے میجر ریٹائرڈ ظفر بھٹی نے بتایا کہ ان کے والد اپنی ڈائری میں اقوال زریں سمیت مشہور شخصیات کے مقولے تحریر کرتے تھے۔روزنامہ جنگ کی رپورٹ کے مطابق انہوں نے بتایا کہ ’والد کو جو چیز بھی پسند آتی تھی یا دل کو چھو جاتی تھی وہ اسے اپنی چھوٹی سی ڈائری میں ضرور لکھتے تھے۔‘میجر ریٹائرڈ ظفر بھٹی نے کہا کہ ان کی ڈائری کی خاص بات یہ تھی کہ اس ڈائری میں جرمن میں اقوال تحریر ہوتے تھے۔والد کے ساتھ گزارے ماضی کے خوشگوار ایام کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ایک دن میں نے ان کی ڈائری دیکھی جس میں جرمن میں کچھ لکھا ہوا تھا تو پوچھا کہ ابا جی یہ کیا ہے؟میرے اس سوال پر والد صاحب نے بتایا کہ یہ جرمن کا مشہور و مقبول مقولہ ہے جو کچھ یوں تھا۔میجر ریٹائرڈ ظفر بھٹی نے بتایا کہ والد کو پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشانِ حیدر ملا جو اس وقت انہی کے گھر پر ہے، انہوں نے بتایا کہ اصل نشان حیدر میری رہائش گاہ پر ہی ہے لیکن اس کی ایک نقل کاپی میجر عزیز بھٹی کی رجمنٹ میں موجود ہے۔انہوں نے بتایا کہ والد کو ملنے والی سورڈ آف آنر اور گولڈ میڈل والد کی وجمنٹ میں ہی لگے ہوئے ہیں
۔1965 کی پاک بھارت جنگ میں مادر ِوطن کے دفاع کی خاطر اگلے مورچوں پر اپنی جان قربان کرنے والے میجر عزیز بھٹی شہید نشان حیدر کا آج55 واں یومِ شہادت ہے۔شہید راجہ عزیز بھٹی 6 اگست1923 کو ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے تھے ، وہ اکیس جنوری 1948 میں پاک فوج میں شامل ہوئے تو انہیں پنجاب رجمنٹ میں کمیشن دیا گیا، انہوں نے بہترین کیڈٹ کے اعزاز کے علاوہ شمشیرِاعزازی و نارمن گولڈ میڈل حاصل کیا اور ترقی کرتے ہوئے 1956 میں میجر بن گئے۔سن 1965 میں بھارت نے پاکستان کی جانب پیش قدمی کی کوشش کی تو قوم کا یہ مجاہد سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہو
ا، سترہ پنجاب رجمنٹ کے 28 افسروں اور سپاہیوں سمیت عزیز بھٹی شہید نے دشمن کے دانت کھٹے کر دیے۔6 ستمبر 1965کو جب بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو میجر عزیز بھٹی لاہور سیکٹر میں برکی کے علاقے میں ایک کمپنی کی کمان کر رہے تھے۔ اس کمپنی کے دو پلاٹون بی آر بی نہر کے دوسرے کنارے پر متعین تھے۔ میجر عزیز بھٹی نے نہر کے اگلے کنارے پر متعین پلاٹون کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ان حالات میں جب کہ دشمن تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا اور اسے توپ خانے اور ٹینکوں کی پوری پوری امداد حاصل تھی۔ میجر عزیز بھٹی اور ان کے جوانوں نے آہنی عزم کے ساتھ لڑائی جاری رکھی اور اپنی پوزیشن پر ڈٹے رہے۔9 اور 10 ستمبر کی درمیانی رات کو دشمن نے اس سارے سیکٹر میں بھرپور حملے کے لیے اپنی ایک پوری بٹالین جھونک دی۔ میجر عزیز بھٹی کو اس صورت حال میں نہر کے اپنی طرف کے کنارے پر لوٹ آنے کا حکم دیا گیا مگر جب وہ لڑ بھڑ کر راستہ بناتے ہوئے نہر کے کنارے پہنچے تو دشمن اس مقام پر قبضہ کرچکا تھا
تو انہوں نے ایک انتہائی سنگین حملے کی قیادت کرتے ہوئے دشمن کو اس علاقے سے نکال باہر کیا اور پھر اس وقت تک دشمن کی زد میں کھڑے رہے جب تک ان کے تمام جوان اور گاڑیاں نہر کے پار نہ پہنچ گئیں۔انہوں نے نہر کے اس کنارے پر کمپنی کو نئے سرے سے دفاع کے لیے منظم کیا۔ دشمن اپنے ہتھیاروں‘ ٹینکوں اور توپوں سے بے پناہ آگ برسا رہا تھا مگر راجا عزیز بھٹی نہ صرف اس کے شدید دباؤ کا سامنا کرتے رہے بلکہ اس کے حملے کا تابڑ توڑ جواب بھی دیتے رہے۔میجرراجہ عزیز بھٹی بارہ ستمبر کو صبح کے ساڑھے نو بجے دشمن کی نقل وحرکت کا دوربین سے مشاہدہ کررہے تھے کہ ٹینک کا ایک فولاد ی گولہ ان کے سینے کو چیرتا ہوا پار ہوگیا ، انہوں نے برکی کے محاذ پر جام شہادت نوش کیا۔میجرراجہ عزیز بھٹی کی جرات و بہادری پر انہیں نشان حیدر سے نوازا گیا، راجا عزیز بھٹی شہید یہ اعزاز حاصل کرنے والے پاکستان کے تیسرے سپوت تھے۔راجہ عزیز بھٹی شہید اس عظیم خاندان کے چشم و چراغ تھے کہ جس سے دو اور مشعلیں روشن ہوئیں، ایک نشان حیدر اور نشان جرات پانے والے واحد فوجی محترم میجر شبیرشریف جب کہ دوسرے جنرل راحیل شریف جو سابق آرمی چیف رہ چکے ہیں۔اس بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس سیکشن میں ضرور کریں ۔