اسلام آباد (نیوز ڈیسک) ابو! آج آخری بار آپ سے گزارش کررہی ہوں اگر مجھے کل موبائل نہ ملا تو میں ہرگز کالج نہیں جاؤں گی۔میری سہیلیاں روز اپنے مہنگے موبائلوں کو اچھال اچھال کر میرا منہ چڑاتی ہیں۔ مجھ میں اب مزید ہمت نہیں کہ ان کے طنزکا نشانہ بنتی رہوں۔واجد غوری صاحب دن بھر دفتر کے گھن چکروں میں الجھنے کے بعد اب گھر کے دروازے کے اندر قدم رکھ چکے تھے۔

ان کی بیٹی ماہم ایک سانس میں یہ ساری باتیں ان کے گوش و گزار کرکے اپنے کمرے میں گھس گئی۔ غوری صاحب کی اہلیہ شبانہ غوری کچن کے دروازے پہ کھڑی یہ تماشا دیکھ رہی تھی۔ اس نے آکر غوری صاحب کو سہارا دے کر لاؤنج کے صوفے پہ بٹھا دیا اور کچن سے پانی لے کر آگئی۔ پانی تھماکر وہ ان کے ساتھ صوفے پہ بیٹھ گئی۔ اور میاں بیوی آپس میں اپنی بیٹی کے رویے اور اس کے مطالبے پہ غور کرنے لگے۔غوری صاحب کا ایک ہی موقف تھا کہ اس وقت ماہم کو موبائل فون رکھنے کی قطعی ضرورت نہیں۔اسے اپنی پڑھائی پر بھر پور توجہ دینی چاہیے۔ موبائل اور دیگر فضولیات کے ساتھ کھیلنے کے لیے ابھی ایک لمبی زندگی پڑی ہے۔ ایک ماں کی حیثیت سے شبانہ غوری اپنے شوہر اور اپنی بیٹی، دونوں کی نفسیات سے بخوبی واقف تھی۔اس کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اپنے میاں کو کیا مشورہ دے۔آدھے گھنٹے کی چخ پخ کے بعد وہی ہوا جو آج کل ہر جگہ ہوتا ہے۔.میاں بیوی نے باہمی مشورے سے بیٹی کی ضد کے آگے سر تسلیم خم کرنے کا فیصلہ کیا۔اس فیصلے کے بعد غوری صاحب اپنے کمرے کی جانب چل پڑے جب کہ شبانہ غوری دل میں گھٹن اور چہرے پہ مصنوعی مسکراہٹ سجائے بیٹی کو خوشخبری سنانے چل پڑی۔وہ رات ماہم کی زندگی کی سب حسین اور طویل رات تھی۔

اس پہ شادء مرگ کی کیفیت طاری تھی۔اگلے دن کے انتظار میں وہ ساری رات جاگتی رہی۔اللہ اللہ کرکے رات گزر گئی۔اس دن صبح اپنی کرنیں بکھیرنے والا سورج غوری صاحب کے خاندان کے لیے ایک خطرناک پیغام لیکر آیا تھامگر اولاد کی ضد کا پردہ بصیرت پہ حائل ہو نے کی وجہ سے یہ پیغام کوئی سمجھ نہ سکا۔کالج سے واپسی پر ماہم کو اپنا موبائل فون مل چکا تھاوہ موبائل ہاتھ میں لیے خوشی کے عالم میں قلابازیاں کھا تے ہوئے اپنے کمرے میں گھس گئی۔اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ حقیقت میں اس کے پاس موبائل ہے۔ساری رات وہ موبائل کے ساتھ کھیلتی رہی۔ صبح آدھا گھنٹہ پہلے ہی وہ کالج جانے کی تیاری مکمل کر کے انتظار میں بیٹھی تھی۔پھروہ کالج گئی اور پورا دن اپنا مہنگا موبائل دکھا دکھا کر سہیلیوں کا منہ چڑاتی رہی۔دن گزرتے گئے اور بات پرانی ہوتی گئی۔ایک دن وہ کالج سے واپسی پر کالج سے متصل موبائل کی دوکان سے اپنے نمبر پہ بیلنس لوڈ کروارہی تھی اسے معلوم نہ ہوسکا کہ اس کے عقب میں کھڑا ایک شخص اپنے موبائل پہ اس کا نمبر نوٹ کرکے وہاں سے جاچکا تھا۔اس رات وہ معمول سے پہلے کمرے میں جا چکی تھی۔ماں باپ نے سمجھا کہ شاید امتحان کی تیاری چل رہی ہے مگر انہیں کیا معلوم تھا ۔

کہ زندگی کا ایک ایسا امتحان سر پہ آنے والا ہے جس کا نتیجہ ذلت اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ماہم نے کمرے میں گھستے ہی کنڈی چڑادی۔ حفظ ما تقدم کے طور پہ اس نے کتابوں کا ایک پلندہ میز پہ بکھیر دیا اور کرسی سے سر ٹکائے اپنی کسی سہیلی کے ساتھ گفتگو میں مگن ہوئی۔ ایک کے بعد ایک سہیلی سے باتیں کر کرکے وہ تھک گئی اور سونے کا ارداہ کرکے کرسی سے اٹھنے ہی والی تھی کہ اچانک موبائل کی گھنٹی بجنے لگی۔وبائل کی سکرین پہ ایک اجنبی نمبر بلنک کررہا تھاوہ کچھ دیر تک سوچتی رہی کہ یہ کس کا نمبر ہوسکتا ہے۔کافی سوچ و بچار کے بعد اس کے ذہن نے یہ فیصلہ کیا کہ شاید کسی سہیلی کا نمبر ہوگا۔ وہ کافی عرصہ اس کے متعلق سوچتی رہی۔اسی دوران موبائل کی سکرین پہ موجود مس کالوں کی تعداد چار تک پہنچ چکی تھی۔انچویں مرتبہ جب موبائل بجنے لگا تو اس نے کال رسیو کرکے موبائل کان سے لگا لیا۔ہیلو،کون؟مم۔۔میں۔۔کاشف۔کون کاشف؟کس کو فون کیا ہے آپ نے؟تھوڑی دیر توقف کے بعد،میں کاشف بات کررہا ہوں۔کیوں فون کیا ہے اور کس سے بات کرنی ہے؟وہ۔۔وہ دراصل! آپ سے بات کرنی تھی۔بکواس بند کرو۔آئندہ اس نمبر پہ کال کرنے کی کوشش کی تومجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔

یہ کہتے ہوئے ماہم نے کال کاٹ دی اور زیر لب بڑبڑاتے ہوئے جاکر بستر پر لیٹ گئی۔ ابھی وہ اس فون کے بارے میں شش و پنج میں مبتلا تھی کہ اچانک موبائل پھر بجنے لگا۔ پھر وہی نمبر اس نے موبائل کان سے لگایا اور گالیوں کی ایک گردان سنانے کے بعد موبائل آف کرکے سوگئی۔کئی دن تک یہ سلسلہ جاری رہا۔کاشف فون کرتا رہا اور ماہم اسے سنے بغیر گالیاں دیتی رہی۔.جب کاشف اپنی شرارت سے باز نہ آیا توماہم نے اپنی ماں کے واسطے سے والد کے سامنے اپنی پریشانی بیان کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے اپنی ماں کو بلاکم وکاست پوری کہانی سناڈالی۔ ماں نے اس کو سختی سے منع کیا کہ وہ اس کا ذکر اپنے ابو سے ہرگز نہ کرے۔ورنہ اودھم مچ جائے گااور ساتھ یہ بھی نصیحت کی کہ نامعلوم نمبروں سے وہ بالکل کال رسیو نہ کرے۔ ماں کی نصیحت نے کسی قدر اس کا بوجھ ہلکا تو کردیا تھامگر ایک کاشف نامی اجنبی شخص اس کے اعصاب پہ سوار ہوچکا تھا۔کچھ دنوں تک وہ اس کی کال نظر انداز کر تی رہی مگر کاشف کی استقامت میں کوئی کمی نہیں آئی۔اس نے ایک دن کاشف سے فیصلہ کن بات کرنے کا فیصلہ کر لیا۔آج وہ اپنا تمام تر غصہ کاشف پہ انڈیلنے کا فیصلہ کر چکی تھی اسے پورا یقین تھا کہ رات 11 بجے کاشف کا فون آئے گا۔اس نے تمام کام ملتوی کر دیے اور اپنی یادداشت کی ڈکشنری میں غصے کے الفاظ اور گالیوں کی اقسام میں اضافہ کرنے لگی۔رات کے 11 بج کر 7منٹ پر اچانک موبائل تھر تھر کانپنے لگا۔

سکرین پہ کاشف کا نمبر نمودار ہوچکا تھا۔ماہم کی پیشانی پر کئی شکنیں نمودار ہوگئیں۔غصے کی وجہ سے دل کی دھڑکن تیز ہونے لگی۔دماغ ہانڈی کے گرم پانی کی طرح ابلنے لگا،ہاتھ لرزنے لگے،اس نے موبائل کان سے لگا یا اور پورے جسم میں دوڑنے والے تمام غصے کو زبان پر مجتمع کرتے ہوئے گرجنے لگی،کمینے انسان آخر تم چاہتے کیا ہو؟تھوڑی دیر خاموشی کے بعد آگے سے جواب آیا۔ایک مرتبہ میری بات تو سنو۔اس کے بعد آپ کی مرضی۔اگر آپ نے کہا تو اس کے بعد میں کبھی فون نہیں کروں گا۔شیطان کی محنت رنگ لانے لگی تھی۔کئی دن کے بعد کاشف کی نخلِ تمنا ہری ہونے کو تھی۔پھر ماہم سنتی گئی اور کاشف بولتا گیا۔ ایک گھنٹے کے اندر کاشف نے ماہم کی تعریف میں زمین اور آسمان کے قلابے ملاکر اس کو شیشے میں اتار دیا تھا۔وہی ماہم جو ایک گھنٹہ پہلے گالیاں دے رہی تھی اب جب کاشف کال کاٹنے لگا تو اس نے پوچھا! پھر کب کال کروگے؟اس کے بعد ملاقاتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا۔وہ گھر سے کالج کے نام پہ نکل جاتی مگر دن بھر کاشف کے ساتھ کبھی مزار قائد تو کبھی کلفٹن کی سیر پہ چلی جاتی،وقت گزرتا گیا،دل بہلتا رہا۔واجد غوری صاحب دفتر اور سماجی کاموں میں مصروف رہے،شبانہ غوری صاحبہ گھریلو کام کاج میں مگن رہی۔اسی اثناء میں کالج کے سالانہ امتحانات قریب آگئے۔ماہم رات بھر جاگتی رہتی ۔

ماں باپ کا خیال تھا کہ وہ رات بھر امتحان کی تیاری میں مصروف رہتی ہے مگر وہ رات بھر جاگ کر سکون سے سوئے ہوئے ماں باپ کے لیے ذلت کا ایک گہرا گڑھا کودنے میں مصروف تھی۔رات بھر وہ کاشف سے فون پہ باتیں کرتی اور صبح غنودگی کے عالم میں کالج چل دیتی۔پھر ایک رات فون پہ بات کرتے کرتے اچانک کاشف نے کہا کہ آج رات کہیں آئس کریم کھانے کیوں نہ چلے۔ماہم نے نے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ یہ ناممکن ہے۔کاشف زد کرتا رہا وہ انکار کر تی رہی،بات تلخی تک پہنچ گئی،کاشف نے دھمکی دی کہ اگر وہ آج نہ آئی تو وہ اس کے ساتھ تعلق ہمیشہ کے لیے ختم کردے گا۔کئی مہینوں کی ملاقاتوں کی وجہ سے وہ اس کے محبت میں پاگل ہو چکی تھی۔بالآخر اس نے ہار مانتے ہوئے جانے کی حامی بھر لی۔آپس میں ایک منصوبہ طے ہو۔منصوبے کے مطابق اس نے گھر بھر کا ایک جائزہ لیا اور ماں باپ کو خواب میں غفلت میں پاکر گھر کے دروازے کی طرف چل پڑی۔۔۔ گھر کے دروازے سے پرے کاشف ایک خوبصورت کار میں اس کا انتظار کررہا تھا۔اس کے چہرے پر حیرت اور خوشی کے ملے جلے اثرات نمودار ہوئے۔کیوں کہ اس سے پہلے کاشف اسے ایک خستہ حال بائک پہ گھمانے لے جاتا تھا۔تھوڑی دیر بعد کار شہر کی ایک مرکزی سڑک پر فراٹے بھر رہی تھی۔ ابھی وہ پوچھنے ہی والی تھی کہ ہم کہاں جارہے ہیں ؟کہ اچانک کار ایک حویلی نما مکان میں داخل ہو ئی، ماہم کو خوف کا ایک شدید جھٹکا لگا ،مگر بہت دیر ہوچکی تھی،کاشف کے منصوبے کے مطابق اس کے 5 دوست پہلے سے مکان میں موجود تھے۔یہ کار بھی ان ہی میں سے کسی کی تھی۔دو دن بعد شہر کے مختلف اخباروں میں یہ خبر غوری صاحب کی عزت سر بازار نیلام کرنے کے لیے کافی تھی۔معروف سماجی کارکن واجد غوری کی اکلوتی بیٹی کو گزشتہ رات اجتماعی طور پر عصمت دری کے بعد جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھی۔ مسخ شدہ لاش سپر ہائی کے قریب جھاڑیوں سے بر آمد