ایک شخص نے اپنی بیوی سے سخت دلی تکلیف اٹھائی جو اس کے کچھ دل و دماغ پہ چوٹ لگا گئی اور اسے اجتماعی طور پر عورت کے وجود سے نفرت ہوگئی۔ وہ اپنے نومولود بیٹے کو لے کر آبادی سے دور جنگل میں لے گیا ،اور وہاں ایک کٹیا بنالی اور اپنے ساتھ قسم کھالی کہ میں اپنے بیٹے کو عورت کی شکل تک دیکھنے نہیں دونگا۔ بیس برس بیت گئے ، ایک دن اس کا بیٹا جنگل میں شکار کررہا تھا کہ وہاں سے کچھ لڑکیوں کا قافلہ گزرا ، لڑکا انہیں مسلسل دیکھ رہا تھا کہ باپ تھا کہ باپ نے اس کا بازو جھٹکتے ہوئے کہا کہ چلو گھر چلتے ہیں ، جب بیٹے نے بہت پوچھا کہ وہ کون سی مخلوق تھی
جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ، تو باپ نے تنگ آکر اسے کہا کہ وہ کہ وہ دوسرے جنگل کا ایک جانور ہے جسے شتر مرغ کہتے ہیں۔رات ہوئی تو نوجوان بیٹا کروٹیں بدلنے لگا ،کبھی چھت کو دیکھے کبھی باہر جائے ، رات کے آخری پہر باپ نے تنگ آکر پوچھا کہ سوتے کیوں نہیں ہو ، کیا وجہ ہے۔بیٹے نے آنکھیں جھکاتے ہوئے جواب دیا کہ ابا مجھے وہ شتر مرغ چاہیئے “کہنے کا مقصد یہ کہ انسانی فطرت کو بدلہ نہیں جاسکتا ، فطری خواہشات فطرت کے اصولوں کے مطابق جنم لیتی ہیں ،انٹڑ نیٹ کے اس دور میں مرد عورت کے تعلقات قائم ہونے کیلئے سیکنڈز بھی زیادہ ہوسکتے ہیں ، ہم زریعہ کوختم نہیں کرسکتے ، لیکن دلوں میں پیدا ہونے والے خیالات کو آگہی ، منطقی تربیت اور پاک تبدیلی سے ضرور ختم کیا جاسکتا ہے۔پہاڑوں سے پگھلنے والی برف کا رخ دریاوں کی طرف نہ موڑا جائے تو فائدے کی بجائے نقصان ہوتا ہے ، بچہ کو کوئلہ پکڑنے سے پہلے ہم اس کی تربیت کرتے ہیں کہ وہ اسے نقصان پہنچائے گا،مسلمانوں کا آج سب سے بڑا مسئلہ اپنی نوجوان نسل کے سامنے کھڑے ان کی ذہنی عمروں سے بڑے چیلنجز اور وقت کے تقاضوں کو نہ سمجھنا اور گھریلو تربیت کا فقدان ہے ، چونکہ بقیہ ادیان تقریبا اعلانیہ اور غیر اعلانیہ الحاد کو اختیار کرچکے ہیں ، اگر مسلمانوں نے اسلام سے وابستہ رہ کر اپنی نسلوں کی تربیت کرنا ہے تو پھر فطری تقاضوں اور زمانہ حال کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے اپنی اور اپنی آئندہ نسلوں کی تربیت کرنا ہوگی۔۔ تعلیم تربیت اور شعور یہ لازم و ملزوم ہیں ورنہ ہماری اجتماعی موت ہمارے در پہ کھڑی ہے۔