اس تحریر میں غربت سے پریشان لوگوں کے لئے ایک خاص وظیفہ شیئر کیاجارہا ہے ۔جمعرات کے دن ظہر کی نماز سے لے کر عصر کی نماز تک جو درمیانی وقت ہے اس وقت کے اندر آپ جو بھی دعا کریں گے تو وہ آپ کی دعا قبول ہوگی ہر جمعرات کو یہ اپنا معمول بنالیجئے۔ظہر کی نماز سے لے کر عصر کی نماز تک درمیانی حصے کے اندر جو بھی آپ کی دعا ہو آپ دعا کریں انشاء اللہ آپ کی دعا قبول ہوگی یہ بہت ہی بابرکت وقت ہوتا ہے صرف اور صرف جمعرات والے دن ۔ جمعرات کا یہ وظیفہ بھی کیجئے
انشاء اللہ اس عمل کی برکت سے اللہ تبارک وتعالیٰ آپ کے کاروبار میں رزق میں گھر میں اولاد میں برکتوں کا نزول فرمائیں گے۔سورہ القریش آخری پارہ کے اندر موجود ہے ۔ آپ نے سورہ القریش جمعرات عصر کی نماز کے بعد اول آخر تین تین مرتبہ درود شریف پڑھ کر درمیان میں سات مرتبہ پڑھنی ہے اور ہر مرتبہ بسم اللہ کے ساتھ ملا کر پڑھنا ہے یعنی سات مرتبہ سات بسم اللہ کے ساتھ پڑھنا ہے انشاء اللہ اس عمل کی برکت کی وجہ سے آپ کے رزق میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہوگا تمام قسم کی مصیبتیں پریشانیوں سے چھٹکارا ہوگا اور اللہ کی ذات آپ کی تمام نیک جائز مرادیں خواہشات پوری فرمائے گا۔اِس سُورۃ کو ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اُس تاریخی پَسْ منظر کو نگاہ میں رکھا جائے جس سے اِس کے مضمون اور سورۂ فیل کے مضمون کا گہرا تعلق ہے۔قریش کا قبیلہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جدِّ اعلیٰ قُصَیّ بن کِلاب کے زمانے تک حجاز میں منتشر تھا ۔ سب سے پہلے قُضَیّ نے اُس کے مکّے میں
جمع کیا اور بیت اللہ کی تَولِیَت اِس قبیلے کے ہاتھ میں آگئی۔ اِسی بنا پر قُصَیّ کو مُجَمِعّ (جمع کرنے والے) کا لقب دیا گیا۔ اِس شخص نے اپنے اعلیٰ درجہ کے تدبُّر سے مکّہ میں ایک شہر ریاست کی بنیاد رکھی ، اور جملہ اطرافِ عرب سے آنے والے حاجیوں کی خدم کا بہترین انتظام کیا جس کی بدولت رفتہ رفتہ عرب کے تمام قبائل اور تمام علاقوں میں قریش کا اثر و رسوخ قائم ہو تا چلا گیا ۔ قُصَیّ کے بعد اس کے بیٹوں عبد مَناف اور عبد الدّار کے درمیان مکّہ کی ریاست کے مناصِب تقسیم ہوگئے، مگر دونوں میں سے عبد مناف کو اپنے باپ ہی کے زمانے میں زیادہ ناموری حاصل ہو چکی تھی اور عرب میں اُس کا شرف تسلیم کیا جانے لگا تھا۔ عبد مناف کے چار بیٹے تھے۔ ہاشِم، عبدِ شمس، مُطَّلِب اور نَوفَل۔ ان میں سے ہاشِم عبد المطَّلِب کے والد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردادا کو سب سے پہلے یہ خیال پیدا ہوا کہ اُس بین الاقوامی تجارت میں حصہ لیا جائے جو عرب کے راستے بلادِ مشرق اور شام و مصر کے درمیان ہوتی تھی ،
اور ساتھ ساتھ اہلِ عرب کی ضروریات کا سامان بھی خرید کر لایا جائے تا کہ راستہ کے قبائل اُن سے مال خریدیں ، اور مکّے کی منڈی میں اندرونِ ملک کے تُجّار خریداری کے لیے آنے لگیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایران کی ساسانی حکومت اُس بین الاقوامی تجارت پر اپنا تسلُّط قائم کر چکی تھی جو شمالی علاقوں اور خلیج فارس کے راستوں سے رومی سلطنت اور بلادِ مشرق کے درمیان ہوتی تھی۔ اس لیے جنوبی عرب سے بحر احمر کے ساحل کے ساتھ ساتھ جو تجارتی راستہ شام و مصر کی طرف جاتا تھا اُس کا کاروبار بہت چمک اُٹھا تھا۔ دوسرے عربی قافلوں کی بہ نسبت قریش کو یہ سہولت حاصل تھی کہ راستے کے تمام قبائل بیتُ اللہ کے خُدّام ہونے کی حیثیت سے ان کا احترام کرتے تھے۔ حج کے زمانے میں نہایت فیّاضی کے ساتھ حاجیوں کی جو خدمت قریش کے لوگ کرتے تھے اس کی بنا پر سب اُن کے احسان مند تھے۔ اُنہیں اِس امر کا کوی خطرہ نہ تھا کہ راستے میں کہیں اُن کے قافلوں پر ڈاکہ مارا جائے گا۔ راستے کے قبائل اُن سے
رھگذر کے وہ بھاری ٹیکس بھی وصول نہ کرسکتے تھے جو دوسرے قافلوں سے طلب کیا جاتا تھا۔ ہاشِم نے اِنہی تمام پہلووں کو دیکھ کر تجارت کی اسکیم بنائی اور اپنی اِس اسکیم میں اپنے باقی تینوں بھائیوں کو شامل کیا۔ شام کے غَسّانی بادشاہ سے ہاشم نے ، حبش کے بادشاہ سے عبدِ شمس نے ، یمنی امراء سے مُطَّلِب نے اور عراق و فارس ی حکومتوں سے نَوفَل نے تجارتی مراعات حاصلی کیں۔ اِس طرح اِن لوگوں کی تجارت بڑی تیزی سے ترقی کرتی چلی گئی۔ اِسی بنا پر یہ چاروں بھائی مُتَّجِرین (تجارت پیشہ) کے نام سے مشہور ہو گئے، اور جو روابط انہوں نے گردو پیش کے قبائل اور ریاستوں سے قائم کیے تھے اُن کی بنا پر اِن کو اَصحابُ الْاِیْلاف بھی کہا جاتا ہے جِس کے لفظی معنی “اُلفت پیدا کرنے والوں” کے ہیں۔اس کاروبار کی وجہ سے قریش کے لوگوں کو شام، مصر ، عراق، ایران، یمن اور حبش کے ممالک سے تعلقات کے وہ مواقع حاصل ہوئے، اور مختلف ملکوں کی ثقافت و تہذیب سے براہِ راست سابقہ پیش آنے کے باعث اُن کا معیارِ دانش و بینش اتنا بلند ہوتا چلا گیا کہ عرب کا کوئی دوسرا قبیلہ اُن کی ٹکّر کا نہ رہا۔ مال و دولت کے اعتبار سے بھی وہ عرب میں سب پر فائق ہوگئے اور مکّہ جزیرۃ العرب کا سب سے زیادہ اہم تجارتی مرکز بن گیا۔
اِن بین الاقوامی تعلقات کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہوا کہ عراق سے یہ لوگ وہ رسم الخط لے کر آئے جو بعد میں قرآن مجید لکھنے کے لیے استعمال ہوا۔ عرب کے کسی دوسرے قبیلے میں اتنے پڑھے لکھے لوگ نہ تھے جتنے قریش میں تھے۔ انہی وجوہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ قریش قادۃ الناس ” قریش لوگوں کے لیڈر ہیں” اور حضرت علیؓ کی روایت بَیْہقَی میں ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا کان ھٰذا الامر فی حِمْیَرَ فنزعہ اللہ منہم وجعلہ فی قریش” پہلے عرب کی سرداری قبیلہ ٔ حِمیْر والوں کو حاصل تھی، پھر اللہ تعالیٰ نے وہ ان سے سلب کر کے قریش کو دے دی”۔قریش اِسی طرح ترقی پر ترقی کرتے چلے جا رہے تھے کہ مکّہ پر ابرھہ کی چڑھائی کا واقعہ پیش آگیا۔ اگر اُس وقت اَبرھہ اِس شہرِ مقدّس کو فتح کر نے اور کعبے کو ڈھادیے میں کامیاب ہو جاتا تو عرب میں قریش ہی کی نہیں، خود کعبہ کی دھاک بھی ختم ہو جاتی ۔ زمانۂ جاہلیت کے عرب کا یہ عقیدہ متزلزل ہو جاتا کہ یہ گھر واقعی بیت الہ ہے۔ قریش کو اس گھر کے خادم ہونے کی حیثیت سے جو احترام پورے ملک میں حاصل تھا وہ یک لخت ختم ہو جاتا ۔ مکّہ تک حبشیوں کی پیش قدمی کے بعد رومی سلطنت آگے
بڑھ کر شام اور مکّہ کے درمیان کا تجارتی راستہ بھی اپنے قبضے میں لے لیتی۔ اور قریش اُس سے زیادہ خستہ حالی میں مبتلا ہو جاتے جس میں وہ قُصَیّ بن کِلاب سے پہلے مبتلا تھے۔ لیکن جب اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کا یہ کرشمہ دکھایا کہ پرندوں کے لشکروں نے سنگریزے مار مار کر ابرھہ کی لائی ہوئی ۶۰ ہزار حبشی فوج کو تباہ و برباد کر دیا ، اور مکّہ سے یمن تک سارے راستے میں جگہ جگہ اِس تباہ شدہ فوج کے آدمی گِر گِر کر مرتے چلے گئے تو کعبہ کے بیتُ اللہ ہونے پر تمام اہلِ عرب کا ایمان پہلے سے بدرجہا زیادہ مضبوط ہو گیا ، اور اُس کے ساتھ قریش کی دھاک بھی ملک بھر میں پہلے سے زیادہ قائم ہوگئی۔ اب عربوں کو یقین ہوگیا کہ اِن لوگوں پر اللہ کا فضلِ خاص ہے۔ وہ بے کھٹکے عرب کے ہر حصّے میں جاتے اور اپنے تجارتی قافلے لے کر ہر علاقے سے گزرتے۔ کسی کی یہ جرأت نہ تھی کہ اُن کو چھیڑتا۔ اُنہیں چھیڑنا تو درکنار، اُن کی امان میں کوئی غیر قریشی بھی ہوتا تو اُس سے کوئی تعّرُض نہ کیا جاتا تھا۔