ہمارے لئے یہی مشروع کیا گیا ہے کہ ہم اپنا ہر قول اور عمل بسم اللہ کے ساتھ شروع کریں پہلی وحی کا آغاز اللہ کے نام کے ساتھ ہوا ہے جبرائیل امین نے پہلی مرتبہ جب نبی ﷺ کو قرآن مجید کی پہلی آیت سکھائی تو فرمایا اِقرء باسم ربک الذی خلق اپنے رب کے نام سے پڑھ جس نے پیدا کیا کہ گویا عبادت ہو
یا ہمارے دنیا کے کام ہوں ان سب میں ہمیں اپنے رب کو یاد رکھنا ہے اور اس کے بے شمار فائدے بھی ہیں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا نام بابرکت ہے لہٰذا جب ہم اللہ کے نام سے کوئی کام شروع کرتے ہیں تو ہمارے کاموں میں برکت پیداہوجاتی ہے قرآن مجید میں آتا ہے تبارک اسم ربک ذوالجلال والاکرام بہت بابرکت ہے تیرے رب کا نام جو بہت عظمت والا اکرام والا ہے جب ہم عبادت کرتے ہیں تو کہتے ہیں ایاک نعبد وایاک نستعین صرف تیری ہی ہم عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے ہم مدد چاہتے ہیں کیونکہ ہم کمزور ہیں ہم اللہ کی عبادت کا حق ادا نہیں کرسکتے اس لئے کوئی بھی کام جو عبادت کی نوعیت سے نعلق رکھتا ہو یعنی خاص عبادات سے ان کے آغاز میں بھی اللہ کا نام لینا چاہئے کیونکہ اس سے اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے اور پھر مزید نیک کاموں کی توفیق بھی ہوتی ہے انسان برائی سے بچتا ہے شیطان کے وار سے محفوظ رہتاہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مدد توفیق اور سپورٹ انسان کو حاصل ہوجاتی ہے اور انسان کے اندر کوئی فخر اور غرور نہیں آتا وہ یہ سمجھتا ہے کہ جو بھی نیک کام میں کررہا ہوں وہ اللہ کی مدد سے اللہ کی توفیق سے ہی کررہا ہوں اس میں میرا اپنا کوئی کمال نہیں وما توفیقی الا باللہ نہیں مجھے توفیق مگر اللہ کے نام کے ساتھ ہی پھر اسی طرح جب انسان باسم اللہ سے کام کا آغاز کرتا ہے تو انسان کو اخلاص نصیب ہوتا ہےکیونکہ جب اللہ کا نام لیا تو اللہ کے نام کے ساتھ اللہ ہی کے لئے کام کرنا چاہئے جو بھی کچھ ہم کریں اور پھر اگر وہ کام صحیح ہے عبادت کا ہے یا دنیاوی امور سے متعلق ہے تو پھر ہماری نیت اور ہمارا قبلہ درست ہوجاتا ہے انسان کو اخلاص نصیب ہوجاتا ہے
پھر اسی طرح یہ ہے کہ انسان جب اللہ کے نام کے ساتھ کوئی کام کرتا ہے تو اللہ کی نعمتوں کی یاددہانی بھی ہوتی ہے مثال کے طور پر اگر آپ پانی پی رہے ہیں تو جب آپ پانی پینے لگتے ہیں تو باسم اللہ کہتے ہیں اور جب بسم اللہ کہتے ہیں تو آپ کو اللہ کی یاد آجاتی ہے اور پھر ساتھ ہی وہ نعمت جو آپ استعمال کررہے ہیں اس کے بارے میں غوروفکر بھی نصیب ہوتا ہے کہ یہ اللہ نے پانی پلایا ہے اور پھر انسان کا غوروفکر اسے کہیں سے کہیں لے جاتا ہے اس کےاندر ایک وسعت پیدا ہوتی ہے وہ سوچتا ہے کہ یہ پانی میرے گلاس میں کہاں سے پہنچا کس نے اتارا تو ظاہر ہے کہ پانی کا پیدا کرنے والا بھی اللہ ہے اور تمام چیزوں کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے پانی سے پیدا کیا ہم تک جو پانی پہنچتا ہے کچھ توزمینی ذرائع سے اور بنیادی طور پر بارش کے ذریعے سے آتا ہے بارش کیسے آتی ہے ؟سمندروں کا پانی بخارات کی شکل میں اوپر اٹھتا ہے اورپھر بادلوں کی شکل میں جہاں اللہ چاہتا ہے برساتا ہے جب بادل برستے ہیں یا برف پڑتی ہے تو پہاڑوں کی چوٹیوں پر اور مختلف جگہوں پر یا تو پانی جم جاتا ہے یا پھر ندی نالوں کی شکل میں دریاؤں کی شکل میں بہنے لگتا ہے اور کچھ پانی رس کر زمین کے اندر چلاجاتا ہے چشموں کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور پھر مختلف ذرائع سے ہوتے ہوتے وہ ہم تک پہنچتا ہے جسے ہم پیتے ہیں اور جب پیتے ہیں تو پھر اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اور آخر میں الحمد للہ کہتے ہیں تو اللہ کی اس تعریف سے اللہ اس بندے سے راضی ہوجاتے ہیں۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین