بصرہ کے قاضی عبیداللّہ بِن حسن رحمتہ اللّہ علیہ سے منقول ہے کہ:میرے پاس ایک حسِین و جمیل عجمی لونڈی تھی،اس کے حُسن و جمال نے مجھے حیرت میں ڈال رکھا تھا۔ایک رات وہ سو رہی تھی۔جب رات گئے میری آنکھ کُھلی تو اسے بِستر پر نہ پا کر میں نے کہا:” یہ تو بہت بُرا ہُوا۔ ”پِھر میں اسے ڈھونڈنے کے لیے جانے لگا تو دیکھا کہ:” وہ اپنے پروردِگار عزوَجل کی عِبادت میں مشغول ہے۔
اس کی نُورانی پیشانی اللّہ سبحان و تعالیٰ کی بارگاہ میں سجدہ ریز تھی۔ ”وہ اپنی پُرسوز آواز سے بارگاہِ خداوندی میں اِس طرح عرض گُزار تھی:” اے میرے خالق! تجھے مجھ سے جو محبّت ہے اسی کا واسطہ دے کر اِلتجا کرتی ہوں کہ تُو میری مغفِرت فرما دے۔
”جب میں نے یہ سُنا تو کہا اِس طرح نہ کہہ بلکہ یوں کہہ:” اے مولیٰ عزوَجل! تجھے اس محبّت کا واسطہ جو مجھے تُجھ سے ہے،تُو میری مغفِرت فرما دے۔ ”یہ سُن کر وہ عابِدہ و زاہِدہ لونڈی جو حقیقت میں ملکہ بننے کے لائق تھی
کہنے لگی:” اے غافل شخص! اللّہ عزوَجل کو مجھ سے محبّت ہے اِسی لیے تو اس کریم پروردِگار عزوَجل نے مجھے شِرک کی اندھیری وادیوں سے نِکال کر اِسلام کے نُوربار شہر میں داخل کِیا،اس کی محبّت ہی تو ہے کہ اس نے اپنی یاد میں میری آنکھوں کو جگایا اور تجھے سُلائے رکھا۔اگر اسے مجھ سے محبّت نہ ہوتی تو وہ مجھے اپنی بارگاہ میں حاضری کی ہرگِز اِجازت نہ دیتا۔
”قاضی عبیداللّہ بِن حَسن رحمتہ اللّہ علیہ کہتے ہیں:” میں اس کے حُسن و جمال اور چہرے کی نُورانیت سے پہلے ہی بہت متاثر تھا،اب اس کی یہ عارِفانہ گُفتگُو سُنی تو میری حیرانگی میں مزید اضافہ ہُوا اور میں سمجھ گیا کہ یہ اللّہ عزوَجل کی ولِیہ ہے۔
”میں نے کہا:” اے اللّہ سبحان و تعالیٰ کی نیک بندّی! جا تُو اللّہ سبحان و تعالیٰ کی رضا کے لیے آزاد ہے۔”جب لونڈی نے سُنا تو کہا:” میرے آقا! یہ آپ نے اچھا نہیں کِیا کہ مجھے آزاد کر دیا۔اب تک مجھے دوہرا اجر مِل رہا تھا ( یعنی ایک آپ کی اطاعت کا اور دوسرا اللّہ عزوَجل کی اطاعت کا ) لیکن اب آزادی کے بعد مجھے صرف ایک اجر مِلے گا