مسلمان ایک بار پھر پستی کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں اور اس کے پیچھے کس کس گروہ کا ہاتھ ہے ۔متحدہ عرب امارات کے بعد بحرین نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے اور 15 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کی میزبانی میں تینوں ملک تعلقات معمول پر لانے کے معاہدوں پر دستخط کررہے ہیں۔ ان معاہدوں کو امن معاہدوں کو نام دیا جا رہا ہے جبکہ اسرائیلی وزیرِاعظم اور صدر ٹرمپ ان معاہدوں کو معاہدہ ابراہیم بھی کہتے ہیں۔ ایک ماہ کے دوران دوسری خلیجی ریاست کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کیا جانا امریکی انتظامیہ کے نزدیک ایک اہم سفارتی کامیابی ہے جسے صدر ٹرمپ انتخابی مہم میں بھرپور استعمال کر رہے ہیں۔اس دوران ایک اور مسلم اکثریتی ملک نے بھی اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اعلان وائٹ ہاؤس میں کیا لیکن اسے ہمارے قومی میڈیا میں نمایاں جگہ نہ مل سکی۔ ہم یہاں مسلم اکثریتی ملک کوسوو کا ذکر کررہے ہیں۔سربیا اور کوسوو کے رہنماؤں نے صدر ٹرمپ کی میزبانی میں ملاقات کی اور باہمی جھگڑے نمٹانے کے بجائے اسرائیل کو تسلیم کرکے چل دیے۔ کوسوو کے وزیرِاعظم سے ملاقات کے دوران صدر ٹرمپ نے اسرائیلی وزیرِاعظم کو فون کیا اور مبارکباد دی کہ ایک مسلم اکثریتی ملک مقبوضہ بیت المقدس میں سفارتخانہ کھولنے کو تیار ہے۔اس موقع پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ امن اور اسرائیل کو تسلیم کرنے کا دائرہ وسیع ہو رہا ہے اور مزید ملکوں کی شمولیت کی توقع ہے۔ صدر ٹرمپ اپنی خارجہ پالیسی میں اس کارنامے کو بھی شامل کر رہے ہیں، یہ الگ بات ہے کہ سربیا کے صدر الیگزینڈر اس بات کے اشارے دے رہے ہیں کہ اگر اسرائیل نے کوسوو کو تسلیم کیا تو بلغراد اپنا سفارتخانہ مقبوضہ بیت المقدس میں منتقل نہیں کرے گا۔بحرین کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کیے جانے کے اعلان سے ایک دن پہلے صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ 15 ستمبر کو وائٹ ہاؤس میں عرب امارات اور اسرائیل کے امن معاہدے میں تیسرا ملک بھی شامل ہوگا۔ صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ خلیجی ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے لیے قطار بنائے کھڑے ہیں۔ یاد رہے کہ کئی ملک قطار میں کھڑے ہونے کا دعویٰ بہت بڑا ہے۔ ٹرمپ کے اس بیان کے بعد اندازے لگائے جانے لگے کہ کون کون اس قطار میں کھڑ ا ہے۔ امریکی صدر کا یہ دعویٰ بحرین کی حد تک درست بھی ہے کیونکہ اب یہ بات سامنے آرہی ہے کہ 13 اگست کو صدر ٹرمپ نے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے تعلقات معمول پر آنے کا اعلان کیا تو اس کے چند گھنٹوں بعد ہی بحرین کے اعلیٰ حکام نے وائٹ ہاؤس کے مشیر جارڈ کشنر اور وائٹ ہاؤس کے خصوصی ایلچی برائے مشرق وسطیٰ ایوی برکووٹز کو فون کیے اور کہا کہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے اگلا نمبر ان کے ملک کا ہونا چاہیے۔بحرین اور اسرائیل کے غیر اعلانیہ تعلقات پہلے سے موجود تھے اور سفارتی مشنز نہ ہونے کے باوجود باہم خفیہ رابطے عشروں سے جاری تھے اس لیے عرب امارات کے اعلان کے بعد بحرین کو کھل کر سامنے آنے میں صرف 29 دن لگے۔
اسرائیلی وفد کے ساتھ عرب امارات کے دورے سے واپسی پر جارڈ کشنر اور ان کا وفد بحرین میں رکا، اسی دن تمام معاملات طے پاگئے لیکن اعلان نہ ہوا کیونکہ وائٹ ہاؤس اور بحرین دونوں کو سعودی گرین سگنل کا انتظار تھا۔ بحرین کے اعلان کے بعد اب ایک بار پھر اندازے لگائے جا رہے ہیں کہ اگلا ملک کون سا ہوگا؟ اور سعودی عرب آخر کب اس کا حصہ بنے گا؟لیکن میری نظر میں اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اس نئی سفارتی مہم کا اصل نشانہ کون ہے؟ آخر وہ کون سا خطرہ ہے جو عرب ملکوں کو اسرائیل کے قریب ہونے یا یوں کہیں کہ عشروں پرانا مؤقف چھوڑ کر اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبور کر رہا ہے؟ اگر کوئی یہ کہے کہ ایرانی خطرہ، تو بات سمجھ نہیں آتی، کیونکہ یہ خطرہ بھی عشروں سے موجود تھا، اچانک کیا افتاد پڑی اور وائٹ ہاؤس کو بھی اس سفارتی مہم پر دن رات ایک کرنا پڑا؟جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اگلا ملک کون سا ہوگا تو اس کا سادہ سا جواب ہے کہ اس ایک ماہ کے دوران امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے جن ملکوں کے دورے کیے ان کی فہرست دیکھ لیں، اس فہرست میں سعودی عرب بھی موجود ہے لیکن وہ ابھی اس سفارتی مہم کا خاموش اور پس پردہ کردار ہے اور کھل کر سامنے نہیں آئے گا۔ میرا اندازہ ہے کہ سعودی عرب امریکی صدارتی الیکشن کے نتائج کا انتظار کرے گا کیونکہ یہ معاہدے ایک ایسے وقت میں ہو رہے ہیں جب دوسری مدتِ صدارت کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ تمام انتخابی جائزوں میں اپنے حریف جو بائیڈن سے پیچھے ہیں۔ خارجہ پالیسی سے متعلق معاملات اس انتخابی مہم میں زیادہ اہمیت اختیار نہیں کرسکے، صدر ٹرمپ خود کو ایک امن ساز شخصیت کے طور پر پیش کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود امریکی ووٹروں کی توجہ کورونا وبا، معیشت اور نسلی امتیاز پر ہے۔اگر سعودی عرب کی بات کی جائے تو اس نے یقیناً بحرین کو گرین سگنل دے کر ٹرمپ انتظامیہ کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن حرمین شریفین کا متولی ہونے کی حیثیت سے وہ خود جلد بازی کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ان حالات میں نئی مدتِ صدارت کے آغاز یعنی 20 جنوری تک سعودی عرب سے اسرائیل کے متعلق کسی بڑے اعلان کی توقع نہ رکھی جائے مائیک پومپیو کے دورے کی فہرست میں دوسرا اہم ملک سوڈان ہے۔ مائیک پومپیو کا دورہ سوڈان 15 سال کے دوران کسی اعلیٰ امریکی عہدیدار کا پہلا دورہ تھا۔ مائیک پومپیو کے دورے کے ایجنڈے پر حیران کن طور پر سوڈان پر عائد پابندیاں یا ملک میں جمہوریت کی بحالی سرِفہرست ایجنڈا نہیں تھا بلکہ اسرائیل کے ساتھ اس کے تعلقات مائیک پومپیو کی گفتگو کا مرکز تھے۔مائیک پومپیو نے سوڈان پر عائد پابندیوں کے خاتمے اور اسے دہشت گردی کا محور قرار پانے والے ملکوں کی فہرست سے نکالنے کے لیے وزیرِاعظم عبداللہ حمدوک سے صاف اور سیدھا مطالبہ کیا کہ وہ ان کے سامنے اسرائیلی وزیرِاعظم کو فون کریں اور تعلقات معمول پر لانے کی بات کریں۔ مائیک پومپیو کا کہنا تھا کہ اس اقدام کے بعد وہ سوڈان کے حوالے سے کانگریس کو مطمئن کرسکتے ہیں اور پابندیاں ہٹانے کا عمل شروع کیا جاسکتا ہے۔ مائیک پومپیو کا مطالبہ سن کر سوڈانی وفد میں شامل ہر عہدیدار کا چہرہ لٹک گیا۔ وزیرِاعظم حمدوک جو عبوری حکومت کے سربراہ ہیں، انہوں نے واضح کیا کہ وہ یہ اختیار نہیں رکھتے اور پومپیو کا مطالبہ ماننے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد مائیک پومپیو نے سوڈان کی فوجی قیادت سے بات کی اور انہوں نے بھی انکار کردیا۔ ایک اور ملک عمان ہے جس کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے والا اگلا ملک ہوگا لیکن مسقط ابھی ہچکچاہٹ کا شکار ہے، تمام ملک جو امریکی کیمپ میں اہمیت برقرار رکھنے کے لیے اسرائیل سے روابط رکھتے ہیں وہ کھل کر سامنے آنے کو تیار نہیں، درحقیقت وہ سب دیکھنا چاہتے ہیں کہ عرب امارات کے ساتھ کیا ہوتا ہے۔ عرب امارات نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا بیان دیا تو یہ بھی کہا کہ وہ اس شرط پر اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ مزید فلسطینی علاقوں پر قبضہ نہیں کرے گا، جبکہ اسرائیلی وزیرِاعظم اس کے بعد کئی بار کہہ چکے ہیں کہ مزید فلسطینی علاقے ضم کرنے کا پروگرام ملتوی ہوا منسوخ نہیں۔دوسری طرف اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے امریکا نے عرب امارات کو ایف 35 طیاروں کا لالچ دیا تھا لیکن اس اعلان کے بعد اسرائیلی حکام بار بار کہہ رہے ہیں کہ خطے میں ان کی فوجی بالادستی کو خطرے میں ڈالنے کا کوئی قدم قبول نہیں ہوگا اور وہ عرب امارات کو ایف 35 سمیت جدید ٹیکنالوجی کی منتقلی کی مخالفت کریں گے۔ لہٰذا ان حالات میں مزید عرب یا افریقی ملکوں کو فوری طور پر اس سفارتی مہم میں شامل کرنا مشکل ٹاسک ہے۔ عرب اور مسلم اکثریتی ملکوں کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر مجبور کرنے کا مقصد یورپی ملکوں کے مؤقف کو تبدیل کروانا بھی ہوسکتا ہے جو امریکی دباؤ کے باوجود اپنے سفارتخانے بیت المقدس منتقل کرنے کو تیار نہیں۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ عرب ملکوں کی کیا مجبوری ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کر رہے ہیں؟ اس کا جواب عرب لیگ کے وزرائے خارجہ میں عرب امارات کے وزیرِ خارجہ انور قرقاش کا بیان ہے۔ یہ وہی اجلاس ہے جس میں عرب لیگ نے اسرائیل اور عرب امارات کے تعلقات معمول پر لائے جانے کے خلاف قراردادِ مذمت پیش کی اور اسے پذیرائی حاصل نہ ہو سکی۔انور قرقاش نے کہا کہ عرب دنیا کے اندرونی معاملات میں ترکی کی مداخلت خطے میں منفی مداخلت کی ایک مثال ہے۔ ترکی کی مداخلت عرب دنیا میں عدم استحکام کا باعث ہے اور سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔ ترکی عرب ملکوں میں براہِ راست مداخلت کے علاوہ ملیشیاؤں اور پراکسیز کے ذریعے بھی مداخلت کر رہا ہے۔ انور قرقاش نے بحیرہ روم میں بھی ترک سرگرمیوں کا خصوصی ذکر کیا اور کہا کہ ترکی بحیرہ روم میں سمندری ٹریفک کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہو رہا ہے۔
عرب امارات کے وزیرِ خارجہ کے بیان سے عرب ملکوں کی مجبوری صاف جھلکتی ہے۔ شام، یمن اور لیبیا سمیت کئی علاقائی امور میں ترکی اور عرب امارات کے تعلقات تناؤ کا شکار ہیں۔ لیبیا میں ترکی فائز السراج کی حکومت کی مدد کر رہا ہے اور عرب امارات ان کے حریف خلیفہ حفتر کا مددگار ہے اور کئی ہوائی اڈوں پر عرب امارات کے جنگی طیارے مامور ہیں جو فائز السراج کی فوجوں پر بمباری کر رہے ہیں۔ عرب ملک ترکی کے بڑھتے ہوئے علاقائی اثر و رسوخ کو خلافتِ عثمانیہ کے احیا کے طور پر دیکھتے ہیں جو انہیں قابلِ قبول نہیں اور ان کی بادشاہتوں کے لیے خطرہ ہے۔عرب امارات کے وزیرِ خارجہ نے بحیرہ روم کا ذکر بھی کیا۔ مصر، غزہ، شام، لبنان اور قبرص کے ساحلوں کے قریب سمندر میں تیل اور گیس کی دریافتوں نے پرانے اور حل طلب مسائل کو نئی جہت دی ہے۔ یونان اور ترکی کے درمیان بحیرہ ایجئن پر کنٹرول، قبرص کی تقسیم، لبنان اور اسرائیل کے درمیان سمندری حدود کا تعین اس کی چند مثالیں ہیں۔مشرقی بحیرہ روم کے تمام ملک اپنے ساحلوں سے 200 کلومیٹر تک اپنے اسپیشل اکنامک زون کے دعویدار ہیں اور ایک دوسرے پر اپنے زون میں مداخلت کا الزام لگاتے ہیں۔ ترکی اور روس اس خطے میں اہم کھلاڑی بن کر ابھرے ہیں۔ روس ایک عشرے سے لیبیا اور شام میں اپنے پتے بہت ہوشیاری سے کھیل رہا ہے اور ان ملکوں میں تنازعات کے کسی بھی حل میں روس مفادات کو مدنظر رکھنا پڑے گا۔ ترکی بھی علاقے میں اپنے ایجنڈے کو پُرجوش انداز میں آگے بڑھا رہا ہے۔ بحیرہ ایجئن، اسپیشل اکنامک زونز، قبرص، شام اور لیبیا میں ترکی کا اپنا ایجنڈا ہے۔ ترکی کی طرف سے اخوان المسلمین کی حمایت بھی مصر، اسرائیل، عرب امارات اور سعودی عرب کو اشتعال دلا رہی ہے، کچھ یورپی ملک بھی بحیرہ روم میں ترکی کے عزائم سے خائف ہیں اور فرانس کی قیادت میں 7 ملکوں کا حالیہ اجلاس اس کا ثبوت ہے۔ترک صدر رجب طیب اردوان بھی یورپی یونین کی رکنیت سے مایوس ہوچکے ہیں اور ان کا رویہ اور پالیسیاں اس کی عکاس ہیں، اور اب انہیں یورپی یونین کی ناراضگی کی کوئی پرواہ نہیں۔ رجب طیب اردوان کو یقین ہوگیا ہے کہ ترکی جس قدر بھی سیکولر ہو، اس کا آئین مذہب سے خالی ہو، یورپی یونین کی رکنیت ترکی کو نہیں مل سکتی اور اس کی بنیادی وجہ ترکی کا مسلم اکثریتی ملک ہونا ہے۔ترکی مایوسی کے اس عالم میں اپنے ہمسایہ یونان، قبرص، شام، عراق، مصر، فرانس اور یورپی یونین کے ساتھ تعلقات بگاڑ چکا ہے، جبکہ سعودی عرب اور عرب امارات کے ساتھ تعلقات دشمنی کی حد تک کشیدہ ہیں۔ امریکا کے ساتھ تعلقات بھی پہلے جیسے نہیں، روس کے ساتھ کہیں شراکت داری ہے تو کہیں رقابت۔ اس کے باوجود ترکی کے ہاتھ میں پتے بہت شاندار ہیں۔ نیٹو کے جنوب میں ترکی کا محل وقوع اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے، ترکی میں امریکی فوجی اڈہ ہے، شام اور عرب ملکوں سے لاکھوں تارکین وطن کو ترکی جب چاہے یورپ میں دھکیل سکتا ہے اور ان سارے پتوں کو رجب طیب اردوان بہت چالاکی سے کھیل رہے ہیں
۔ترکی کے ان عزائم سے خائف یورپی ممالک بھی اب عربوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ عرب امارات کے وزیرِ خارجہ انور قرقاش کا بحیرہ روم کی طرف اشارہ مقصد سے خالی نہیں۔ عرب خود ترکی کو خطرہ سمجھ رہے ہیں۔ ان حالات میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنا ایران کے خلاف نہیں بلکہ ترکی کے مقابلے کے لیے ہے۔ ترکی کے خطرے کا ادراک اسرائیل اور عربوں کو پہلے سے ہے، جنوری 2019ء میں اسرائیل، سعودی عرب، مصر اور عرب امارات کے حکام نے ایک خفیہ ملاقات کی تھی، جس میں اسرائیل کی نمائندگی موساد کے سربراہ نے کی تھی۔ اس ملاقات میں موساد چیف نے عربوں کو باور کرایا تھا کہ ایران کمزور پڑ چکا ہے، اصل خطرہ ترکی ہے۔ اس خفیہ ملاقات میں ترکی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے 4 اقدامات پر اتفاق ہوا تھا۔ پہلا اتفاقِ رائے صدر ٹرمپ کو افغانستان سے انخلا میں مدد دینا تھا، اس خفیہ اجلاس کے ایک ہفتہ بعد افغان طالبان سے امریکی حکام کی ابوظہبی میں ملاقات ہوئی جس میں سعودی عرب، پاکستان اور عرب امارات کے حکام موجود تھے۔ اسی اجلاس کے نتیجے میں امریکا طالبان معاہدہ ممکن ہو سکا تھا۔خلیجی اور اسرائیل خفیہ اجلاس میں دوسرا اتفاقِ رائے عراق میں سنی کارڈ کو کنٹرول کرنا تھا تاکہ عراق میں ترک اثر و رسوخ توڑا جاسکے۔تیسرا اتفاقِ رائے شام کے ساتھ سعودی عرب، مصر اور عرب امارات کے سفارتی تعلقات کی بحالی اور بشارالاسد حکومت کو تسلیم کرکے عرب لیگ میں واپس لانا تھا تاکہ بشارالاسد کو ایران سے دُور کیا جائے اور ترکی کا مقابلہ کیا جائے۔ عرب ملکوں کو علم تھا کہ بشار کو ایران سے دُور نہیں کیا جاسکتا لیکن ان کا پیغام تھا کہ ایران کے ہاتھوں استعمال ہونے کی بجائے اسے استعمال کرو اور اپنے والد کی طرح ایران سے برابری کے ساتھ معاملات کرو۔ اس کے نتیجے میں کئی عرب ملکوں کے حکام نے دمشق کے دورے بھی کیے۔اس خفیہ اجلاس میں چوتھا اتفاقِ رائے ترکی کے خلاف شام کے کردوں کی حمایت تھی۔ تمام تر مخالفت کے باوجود ترکی پہلے سے مضبوط ہوا ہے، ترکی نے خودانحصاری پر توجہ دی، قومی مفاد میں پالیسیاں بنائیں، شام اور لیبیا میں اگر ترکی اور روس آمنے سامنے ہیں تو بحیرہ روم میں دونوں کے مفادات سانجھے ہیں اور دونوں برابری کی بنیاد پر بات کرتے ہیں۔ ترکی کی معیشت سعودی معاشی حجم کے برابر ہے۔ پھر جب امریکا اور اسرائیل نے ڈرونز دینے سے انکار کیا تو ترکی نے اپنے ڈرونز خود بنائے۔ اس کے ساتھ ساتھ ترک کمپنیاں سمندر میں گیس تلاش کرنے کے بعد گیس فیلڈ تیار کرنے اور اسے ملکی مارکیٹ میں سپلائی کرنے کے قابل بھی ہیں۔اسرائیل نے قومی سالمیت کے لیے خطرہ قرار دیے گئے ملکوں کی فہرست میں ترکی کو شامل کر رکھا ہے۔ یونان کی حمایت میں کھڑے ہونے والے فرانسیسی صدر نے حال ہی میں 7 ملکی اجلاس میں ترکی کو دھمکی دینے کی کوشش کی اور کہا کہ یورپی ملک ترکی کے لیے ریڈلائنز کا تعین کریں اور اگلے یورپی یونین سربراہ اجلاس سے پہلے ترکی یونان کے ساتھ معاملہ مذاکرات سے حل کرے
ورنہ پابندیوں کی نئی فہرست تیار کی جائے گی۔فرانس نے پچھلے ماہ بحری جنگی جہاز اور طیارے خطے میں بھجوائے تھے اور فرانس، یونان اور قبرص نے مشترکہ جنگی مشقیں کی تھیں۔ قبرص فرانس سے 8 رفال طیارے، 4 کثیرالمقاصد بحری جنگی جہاز، 4 نیوی ہیلی کاپٹرز، نئے اینٹی ٹینک ہتھیار اور نیوی تارپیڈوز، ایئرفورس میزائل خرید رہا ہے۔ اس کے علاوہ قبرص 15 ہزار نئے فوجی بھرتی کرنے کے ساتھ ملکی دفاعی صنعت میں بھاری سرمایہ لگا رہا ہے۔امریکا بھی قبرص تنازع میں سرگرم ہوچکا ہے اور اس نے قبرص پر 33 سال سے عائد اسلحہ پابندیاں ایک سال کے لیے اٹھا لی ہیں اور امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے پچھلے ہفتے کے اختتام پر قبرص کا دورہ کیا اور قبرص کے صدر سے ملاقات میں مائیک پومپیو نے کہا کہ قبرص کو اپنے اکنامک زون میں قدرتی وسائل کی تلاش کا حق ہے۔عرب اسرائیل تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں کو وسیع تناظر میں دیکھا جائے تو یہ دنیا میں بنتے نئے اتحادوں کا حصہ ہے۔ دنیا ایک بار پھر 2 بلاکس میں بٹ رہی ہے۔ چین کا اثر و رسوخ مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں غیر معمولی طور پر بڑھا ہے، اور اس اثر و رسوخ کو توڑنے کے لیے امریکا کئی نئے اتحاد بنا رہا ہے۔چین کے مقابلے میں بھارت، جنوبی کوریا، جاپان اور آسٹریلیا کا 4 ملکی اتحاد بن رہا ہے، جس میں مزید ملکوں کو بھی شامل کیا جائے گا۔ ان 4 ملکوں نے حال ہی میں اسٹریٹجک اور لاجسٹک معاہدے کیے ہیں۔ لداخ میں چین کے ساتھ مشکلات میں پھنسا بھارت اس 4 ملکی اتحاد کو باضابطہ شکل دینے کی کوششوں میں لگا ہوا ہے۔ اس 4 ملکی اتحاد کا سرپرست امریکا ہے جو مستقبل کی جنگوں کو اپنی سرحدوں سے دُور رکھنے کی کوشش میں مصروف ہے۔مستقبل کی جنگیں امریکی سرحدوں پر پہنچنے کا خدشہ امریکی فضائیہ کے نئے سربراہ نے خود ظاہر کیا ہے۔ امریکا معاشی بحران کی دہلیز پر ہے اور فوجی بجٹ بڑھانے کی بجائے کم کرنے کی فکر میں ہے۔ نئے امریکی ایئرچیف چارلس براؤن جونیئر نے کہا کہ بجٹ دباؤ کی وجہ سے مستقبل میں مشکل فیصلوں کی ضرورت ہوگی۔ مستقبل میں ہونے والی جنگیں پچھلے 20 سال کی جنگوں سے مختلف ہوں گی، چین اور روس کے ساتھ ممکنہ جنگیں امریکی ساحلوں کے قریب ہوں گی۔بدلتے حالات میں پاکستان کو بھی اپنے اتحادیوں پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔ افغانستان سے امریکی انخلا اگر اسرائیل عرب خفیہ کوششوں کے نتیجے میں ہوا ہے تو مستقبل میں اس کے اثرات بھی مرتب ہوں گے اور افغان پالیسی پر نہ صرف نظرثانی کی ضرورت پڑے گی بلکہ امریکا کی طرف سے افغانستان کو ایک بار پھر خانہ جنگی میں دھکیل کر خطے سے نکل جانے کے اندیشے موجود ہیں۔امریکا بھارت کو ہر صورت اپنے کیمپ میں رکھنے اور روس کی طرف رجوع سے روکنے کی کوششوں میں ہے۔ چین کے ساتھ بھارت کا اتحاد ممکن نہیں، امریکی اتحادی بننے کے بعد بھارت کا مشرق وسطیٰ میں بھی اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے، بھارت بڑی معیشت ہونے کی وجہ سے عرب ملکوں کے لیے کشش رکھتا ہے۔ بھارت اسرائیل کا بھی اتحادی ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان دفاعی تعاون کے معاہدے موجود ہیں۔ بھارت اور اسرائیل کشمیر اور فلسطین کی وجہ سے ایک جیسے مسائل کا شکار ہیں، بھارت مسئلہ فلسطین پر عشروں پرانی پالیسی چھوڑ کر اسرائیل کی طرف طرف مائل ہے۔اس بارے میں اپنی رائے کا اظہارکمنٹس سیکشن میں ضرور کریں ۔