میدہ سک ایک لکڑی نما چیز ہے جو پنسار سے عام مل جاتی ہے میدہ سک ان افراد کے لئے مفید ہے جن کی ہڈی ٹوٹ گئی ہو میدہ سک کو پیس کر رکھ لیں ۔پندرہ یوم تک صبح و شام آدھی چمچ نیم گرم دودھ کے ساتھ لیں انشاء اللہ فائدہ ہوگا۔انسان کو صحت مند رکھنے کے لیے طبی سائنس میں مسلسل نئے نئے تجربے ہو رہے ہیں، انھیں تجربات میں سے ایک اہم بائیوگلاس کا امپلانٹ بھی ہے۔یعنی ہڈیوں کو جوڑنے میں قدرتی گلاس کا استعمال۔ ہڈیوں کو جوڑنے کے لیے کانچ کا استعمال بھی ہو سکتا ہے۔ سننے میں یہ بات تھوڑی عجیب ضرور لگ سکتی ہے لیکن اس وقت بہت سے ممالک میں ڈاکٹر بائيوگلاس کی مدد سے ٹوٹی ہوئی ہڈیوں کو جوڑنے کا کام کر رہے ہیں۔اس کانچ کا استعمال اس مقصد کے لیے ہورہا ہے وہ کوئی معمولی گلاس نہیں ہے۔ یہ بائیو گلاس بہت ہی خاص ہے۔
یہ نہ صرف ہڈیوں سے زیادہ مضبوط ہے بلکہ لچکدار ہونے کی سبب مڑ بھی سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے کوئی انفیکشن بھی نہیں ہوتا ہے۔لندن کے معروف سرجن ایان تھامسن نے دنیا کا سب سے پہلا گلاس امپلانٹ کیا تھا۔ انھوں نے پہلی بار یہ تجربہ ایک مریض کی آنکھ میں بائیو گلاس کی پلیٹ ڈال کر کیا تھا۔ٹریفک حادثات انسانی زندگی کا ایک حصہ ہیں اور اس سے انکار ممکن نہیں۔ ان حادثات کے نتیجے میں کئی افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور کئی بری طرح زخمی ہو جاتے ہیں۔ صرف امریکہ میں ایک سال کے دوران ساٹھ لاکھ افراد مختلف ٹریفک حادثات میں زخمی ہو کر ہڈیاں تڑوا بیٹھتےہیں۔ ہڈیاں ٹوٹنے یا فریکچر سے متاثر ہونے والے افراد کا علاج عموماً روایتی طریقے کے مطابق متاثرہ حصے پر پلاسٹر یا فائبر گلاس کے بنے ہوئے بھاری بھر کم غلاف پہنا کر کیا جاتا ہے اور مریض کو اس وقت تک اسے پہننا پڑتا ہے جب تک مریض کی ٹوٹی ہڈی جڑ نہیں جاتی۔ تاہم اب ٹیکنالوجی میں جدت آنے کے باعث اس میدان میں بھی تبدیلی کی ہوا چل پڑی ہے۔ تھری ڈی ٹیکنالوجی کے عام ہو جانے کے بعد اب ٹوٹی ہڈیاں جوڑنے کے لئے بھاری پلاسٹر کے بجائے اب تھری ڈی پرنٹر سے پرنٹ کئے جانیوالے پلاسٹک کے بنے ہوئے ایسے ہلکے مگر ہڈیوں کو اپنی جگہ پر کس کر جکڑنے والے ڈھانچہ تیار کیا گیا ہے
جو نہ صرف مریض کے لئے نہایت آرام دہ ہے بلکہ اس کی مدد سے ہڈیوں کے جڑنے کے عمل میں بھی تیزی آتی ہے۔ لہذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ تھری ڈی پرنٹر کی مدد سے اب طبی دنیا کے میدان میں بھی نمایاں تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔ اس وقت دنیا میں کئی کمپنیاں نئی ٹیکنالوجی کی مدد سے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تھری ڈی ٹیکنالوجی کی مدد سے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے جا رہے ہیں۔ اس سال کے آغاز میں زید موسی بادوان نے ایک میکسیکو میں میڈی پرنٹ کے نام سے ایک کمپنی قائم کی اور تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی کی مدد سے ہڈیوں کو جوڑنے کے لئے پلاسٹر کی جگہ ہلکے مگر آرام دہ اور پلاسٹک کے بنے ہوئے ڈھانچے ڈیزائن کئے۔ ان ڈئزائنز کو انہوں نے زکیلٹ کا نام دیا۔ ان ڈیزائنز کی عالمی سطح پر بہت پزیرائی کی گئی اور انہیں اس پر ریڈ ڈاٹ ڈیزائن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ پلاسٹک کا یہ ڈھانچہ مریض کی ٹوٹی ہوئی ہڈی کی نوعیت کے مطابق تیار کیا جاتاہے اور اس حوالے سے اپنائی جانیوالی تکنیک نہایت سادہ ہے۔ سیکنر کی مدد سے مریض کی ٹوٹی ہوئے ہڈی کا جائزہ لیا جاتا ہے
اور پھر خصوصی طور پر تیار کئے جانیوالے ایک سافٹ وئیر کی مدد سے مریض کے لئے اسکی ضروریات کے مطابق پلاسٹک سے بنا ڈھانچہ تیار کیا جاتا ہے۔ یہ ڈھانچہ دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے ایک جسم کے متاثرہ حصے کے اوپری جانب اور دوسرا متاثرہ حصے کے نچلی جانب رکھا جاتا ہے اور پھر اسے ایک دوسرے سے اس طرح منسلک کیا جاتا ہے کہ ڈھانچے کے دونوں حصے ایک دوسرے کو اس طرح جکڑ لیتے ہیں کہ ہڈی پر کسی طرح کا دباؤ محسوس نہیں ہوتا۔ یہ ڈھانچہ ہڈیوں کو جلد جوڑنے میں بھی مدد کرتاہے۔ سپین کے صحت سے متعلق ادارے نے اس ڈھانچے کے کلینکل تجربات کی منظوری دے دی ہے اور اس کے دومریضوں پر تجربات ہونگے جس کی کامیابی کے بعد اس کو فروخت کی اجازت مل جائیگی۔ امید کی جا رہی ہے کہ تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی سے تیار ہونیوالا یہ ڈھانچہ آئندہ چھ ماہ کے دوران فروخت کے لئے پیش کر دیا جائیگا۔ اس کی قیمت 2000 سے 5000 ڈالرز تک ہو گی۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔آمین