اسلام آباد(نیوز ڈیسک) وزیر اعظم پاکستان عمران خاں جن کا شمار دنیا کی بااثر ترین شخصیات میں ہوتا ہے جس کا اعتراف دنیا بھر کے تجزیہ کار متعدد بار کر چکے ہیں پاکستانی عوام بھی خواہ وہ دنیا کے کسی ملک میں بھی مقیم ہیں اُنہوں نے ہر مشکل وقت میں اپنے پسندیدہ لیڈر وزیر اعظم عمران خاں کی آواز پر
لبیک کہا ہے . ایک نعرہ پہلے سے مقبول ہے۔ کشمیر بنے گا پاکستان کشمیر تو انشا اللہ پاکستان بنے گا اور ان دنوں بن ہی گیا مگر ہر طرف کشمیر کشمیر ہو رہا ہے۔ جمعرات کے دن جب عمران خان نے کہا تھا 12 بجے کے بعد ہر شخص اپنے اپنے گھر سے باہر نکل آیا ، نامور کالم نگار ڈاکٹر اجمل نیازی اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ اس میں خواتین و حضرات کی تخصیص نہیں تھی۔ ہم سب ایوان کارکنان پاکستان میں تھے۔ سب کے سب باہر نکل آئے اور سڑک پر پہنچ گئے۔ کئی لوگوں کے پاس مختلف بینرز تھے۔ سڑک کے دوسری طرف چند معزز خواتین تھیں۔ ہم نے انہیں اپنے پاس بلا لیا۔ اس طرح ہمارا مظاہرہ مکمل ہو گیا۔ ہمارے ہمسائے میں پرل کانٹینینٹل ہوٹل کے چھوٹے بڑے سب ملازمین بھی باہر نکل آئے۔ ہمیں اچھا لگا۔ ان کی آنکھوں میں وطن کی جو محبت تھی بیش بہا تھی۔ ان کے ہاتھوں میں جھنڈ ے تھے جن کی کسک ہمارے بدن میں بھی سرایت کرتی جا رہی تھی۔ ہم نے ایک دوسرے کو دیکھ کر بڑے نعرے لگائے۔ ایوان کارکنان پاکستان کے لوگوں کے ہاتھوں میں جھنڈے تھے اور پوسٹر تھے جن پر وطن سے وابستگی کے نعرے لکھے تھے۔ پاکستان زندہ باد کے نعروں کے ساتھ ساتھ آزاد کشمیر
زندہ باد کے نعرے بھی بڑے جوش و خروش کے ساتھ لگائے جا رہے تھے میں نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ایسے مظاہرے کبھی نہیں دیکھے۔مجاہد کشمیر اور مجاہد اسلام پروفیسر حافظ سعید سے امریکہ بھارت اور پاکستان تینوں ڈرتے ہیں۔ پاکستان حافظ صاحب کے لیے پریشر برداشت نہیں کر سکتا۔ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی حکومتیں ذرا سا دبائو برداشت نہیں کرتیں۔ سب سے پہلی بار حافظ صاحب کو دیکھا تو حیران رہ گیا۔ وہ د یہاتی مزاج کے آدمی ہیں۔ ان میں عسکریت پسندی والی کوئی بات نہیں۔ مگر ان کے پاس دل بہت بڑا ہے اور ان کے چہرے پر خوبصورت داڑھی ہے۔ حیرت ہے کہ ایک عام سے شخص سے امریکہ اور بھارت ڈرتا ہے اور پاکستان شاید اس لیے ڈرتا ہے کہ ان سے امریکہ اور بھارت کیوں ڈرتے ہیں۔ مسلمانوں کی تاریخ میں ایسے ہی کئی شخص تھے جن سے حکمران ڈرتے تھے۔ اصل میں تخت چھن جانے کا اندیشہ بھی تو ایک ہی شخص سے ہوتا ہے۔ مگر جس شخص کے پاس نہ فوج ہو نہ اس سے ملتی جلتی فورس ہو نہ اس نے کبھی تخت نشینی کے شوق میں جنگیں لڑی ہوں، اس سے خوفزدگی کا کیا جواز ہے؟ جو خوفزدہ ہیں وہ جواز سے کچھ زیادہ ہی خوف زدہ ہیں۔ بظاہر وہ اپوزیشن میں
نہیں پھر ان کے پاس کونسی ایسی پوزیشن ہے کہ حکومتیں اپنے مخالفین میں حافظ صاحب کو سب سے زیادہ خطرناک سمجھتی ہیں۔ یہ کوئی اندر کا خوف ہے ورنہ باہر کی صورتحال تو ایسی سنگین بظاہر نظر نہیں آتی۔ کشمیر کے حوالے سے بھی میلہ عمران خان نے لوٹ لیا ہے۔ ہر طرف کشمیر کا نعرہ آزاد کشمیر کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ جمعہ کے دن جب عمران خان نے بارہ بجے اپنے اپنے گھروں سے باہر نکلنے کی ہدایت کی تو سب خو اتین و حضرات باہر نکل آئے۔ کئی خواتین نے کچن میں ہانڈی چولھے پر چھوڑ دی۔ کچھ مردوں کو دوسری جوتی پہننے کا خیال نہ آیا۔ سارے پاکستانی خواتین و حضرات گھروں سے باہر آ گئے۔ عمران خان کے لیے محبت اور اطاعت کا یہ جذبہ خوش آئند ہے۔ آئندہ کوئی اور بات عمران خان نے کہی تو اس پر بھی عمل ہو گا۔ جنگی محاذ پر پہنچنے کی ہدایت کے مطابق کام بھی ہو گا۔ عمران خان نے اپنی کریڈیبلٹی ثابت کر دی ہے۔ لوگوں کا یقین بحال کیا ہے بلکہ اسے یقین محکم بنا دیا ہے۔ لگتا ہے کہ اب وہ جو کہے گا لوگ اس پر پورا پورا عمل کریں گے۔پہلے اعتراض یہ تھا کہ عمران خان کے دوست اس جیسے نہیں ہیں۔ اس کی ٹیم اچھی نہیں ہے۔ اس کے ساتھ لوگ مکمل طور پر
اس کا ساتھ نہیں دے رہے مگر اب تو ڈاکٹر بابر اعوان جیسے لوگ اس کے ساتھ دل و جان سے ہیں۔ امید ہے کہ اب جو امید یں لوگ عمران خان سے رکھتے ہیں وہ ضرور پوری ہونگی۔ جن مشکلات کا لوگوں کو سامنا ہے اور جو مسائل انہیں درپیش ہیں ان کا عمران خاں کو علم ہے اور احساس بھی ہے اور یہ عزم بھی ہے کہ وہ ان سب باتوں سے نبردآزما ہونگے۔ سب سے بڑی بات مہنگائی کی ہے ، یہ مہنگائی اس دور کی نہیں ہے۔ اس میں پچھلے کئی ادوار کا حصہ شامل ہے مگر ایسا انتظام کیا جا رہا ہے، ایسے اہتمام حکومت کے سامنے ہیں کہ سب مسائل پر قابو پا لیا جائے گا۔ ویسے بھی یہ درست نہیں ہے کہ حکومت کی ڈیڑھ سال کی کارکردگی کو پانچ سالہ کارکردگی کے ساتھ پرکھا جائے۔ البتہ آئندہ کچھ عرصے میں حیرت انگیز تبدیلیاں نظر آئینگی اور مخالفین نے تبدیلی کے لفظ کا جس طرح مذاق بنا لیا ہے حیران رہ جائیں گے۔ انہیں بھی تبدیلی کے لفظ پر یقین آ جائے گا۔ اس سے پہلے بھی عمران خان کی قسمت پر کئی حیران کُن باتیں موجود ہیں اور لوگوں کی یاد میں تو اب جو کچھ ہو گا۔ وہ بھی انہیں یاد رہے گا۔ بس وہ اتنا کریں کہ عمران پر وہی اعتماد رکھیں جو پہلے رکھتے تھے اور تھوڑا انتظار کریں۔ ہماری قوم کو انتظار کرنا نہیں آتا ، صرف انتشار کرنا آتا ہے۔ میں تو کہتا ہوں کہ انتظار کریں اور اعتبار بھی کریں۔ اعتبار کے بغیر انتظار بے معنی ہے اعتبار کریں اور انتظار کریں۔انشاء اللہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔