جمعیت علماء اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ دھاندلی کروانے کی معذرت کرے، سرآنکھوں پر بٹھا لیں گے ،ہم اداروں کے دشمن نہیں ،اداروں اور ذمہ دران کا احترام کرتے ہیں،لیکن جعلی حکومت کی پشت پناہی پرگلہ کرنا ہمارا حق ہے۔
انہوں نے کوئٹہ میں پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دو ججز نے کہا کہ یہ اتنا بڑا جرم ہے کہ صدر مملکت کو مستعفی ہونا چاہیے یا پھر مواخذہ کرکے منصب سے الگ کیا جانا چاہیے، اخلاقی اور قانون جواز تو آپ کے پاس حکومت کرنے کا پہلے بھی نہیں تھا، اب عدالتی فیصلے کے بعد کس بنیاد پر صدر مملکت اور وزیراعظم کرسی پر بیٹھتا ہے؟ پی ڈی ایم کا مئوقف تھا یہ حکمران جعلی ہیں، آج ہمارا مئوقف اور بھی مضبوط ہوگیا ہے ۔ہم آج بلوچستان کی سرزمین پر گفتگو کررہے ہیں، 18ء وین ترمیم کے ذریعے صوبے کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا، تمام جماعتوں نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم 18ویں ترمیم این ایف سی ایوارڈ اور صوبوں کے اختیارات میں تبدیلی نہیں ہونے دیں گے۔صوبوں کے جزائر پر قبضے کا کوئی حق نہیں دیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس وقت بھی کہا تھا کہ ملک ان کے حوالے مت کرو، ہماری پچھلی حکومت میں آخری بجٹ پیش کیا گیا تو ترقی کا تخمینہ ساڑھے پانچ فیصد اور اگلے سال کا ساڑھے 6فیصد تھا ۔
لیکن جب انہوں نے بجٹ پیش کیا تو سالانہ ترقی کا تخمینہ صفر سے بھی نیچے چلا گیا ہے۔ ملکی دفاع ضروری لیکن بقاء کیلئے معیشت کی ترقی ضروری ہے، سویت یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ آج تم پاکستان کی معیشت تباہ کردی ہے، میں بتانا چاہتا ہوں کہ یہی واجپائی تھا، یہی معیشت تھی، واجپائی نے مینار پاکستان پر کھڑا ہوکر پاکستان کو تسلیم کیا، افغانستان اور ایران، مشرق وسطیٰ پاکستان کے ساتھ کاروبا رکرنا چاہتا تھا۔
لیکن آج اسی ہندوستان میں واجپائی کی جماعت کی حکومت ہے، لیکن مودی کا رویہ دشمنی والا ہے، کیونکہ پاکستان معاشی لحاظ سے کنگال ہوگیا ہے۔مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ہماری پچھلی حکومت نے چین سے رابطہ کیا، چین کی 70سال پاکستان سے دوستی رہی،اس نے پاکستان میں 70ارب ڈالر خرچ کیے تاکہ سڑکیں بنیں،بجلی اور ملکی معیشت مستحکم ہو، ان کی حکومت آئی تو ان کا فلسفہ تھا ہم میگاپراجیکٹ ، سی پیک ، اور صنعتوں ، بجلی کے بڑے منصوبے نہیں بناسکتے، پاکستان ان منصوبوں کا متحمل نہیں ہوسکتا، لکھ لعنت ہو، آپ کے منصوبے کٹے اور مرغی کا منصوبہ ہے۔
ہم نے چین کو ناراض کردیا ۔جب خزانے میں کچھ نہیں تھا تو مدد کیلئے سعودی عرب نے تین ارب ڈالر رکھے۔ آج تو افغانستان بھی آپ کی بات نہیں کرتا۔آج پاکستان کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا محور ہمیشہ کشمیر رہا ہے، عمران خان نے کشمیر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا فارمولہ دیا، پھر دعا کی کہ ہندوستان میں مودی کی حکومت آئی ہے، یہ کشمیر فروش ہیں، گلگت بلتستان کی ان کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں، یہ کہتے ہم گلگت بلتستان کو صوبہ بنا دیں گے۔
ایسا کرنے سے کشمیر کا جواز پیدا ہوجائے گا۔انہوں نے کہا کہ ادارے ملک کیلئے ناگزیر ہوتے ہیں، ہم اداروں کے دشمن نہیں ،اداروں اور ان کے ذمہ دران کا احترام کرتے ہیں، لیکن اگر وہ مارشل لاء مسلط کرتے ہیں، یا پھر جعلی حکومت کی پشت پناہی کرتے ہیں توپھر گلہ کرنا ہمارا حق بن جاتا ہے۔ آج بھی ہماری اسٹیبلشمنٹ جعلی حکومت کی پشت پناہی سے دستبردار ہوجائے اور قوم کے سامنے معذرت کرلے ہم نے الیکشن میں غلط کیا تھا، ہم آج بھی ان کو اپنی آنکھوں پر بٹھانے کیلئے تیار ہیں۔