لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک )پاکستان کے مایہ ناز فاسٹ بائولر شعیب اختر نے اپنی زندگی کا ایک اہم واقعہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ جب میں پنڈی کلب میں کرکٹ کھیلا کرتا تھا اور واپس گھر جاتا تھا تو وہاں راستے میں ایک گنے کے جوس والا ہوتاتھا ، مجھے گنے کا جوس بہت پسند تھا، میں نے اسے کہا کہ تم مجھے مفت میں گنے کا جوس پلایا کرو ، ایک دن جب مین سٹار بن جائوں گا تو تمہیں گنے کے جوس کی مشین لے کر دوں گا۔ پھر آہستہ آہستہ ہماری دوستی ہو گئی۔ اس نے مجھ سے پوچھا
کہ کیا تمہیں یقین ہے کہ تم سٹار بن جاؤ گے ۔ میں نے طارق سے کہا کہ میری آنکھوں یہ آگ دیکھو میں سٹار ضرور بنوں گا ۔شعیب اختر کا کہناتھا کہ اس نے مجھے ڈیڑھ سال مفت میں گنے کا جوس پلایا پھر جب میں سٹار بن کر واپس آیا تو مجھے پتہ چلا کہ اس کی وفات ہو چکی ہے۔ جب مجھے اس کی وفات کی خبر ملی تو میں بہت افسردہ ہوا اور اس کا گھر تلاشتہ ہوا وہاں چلا گیا اور پھر انہیں میں نے کہا کہ اب مشین نہیں بلکہ آپ کو ایک دکان بنا کر دوں گا۔ پھر میں نے انہیں دکان بنوا کر دیدی۔
ایک بار ایک لڑکا اپنی ایک ٹیچر کے پاس گیا اور ان سے پوچھا کہ مس شادی اور پیار میں کیا فرق ہوتا ہے؟ وہ بولی کہ اس کا جواب میں تمہیں ایک تجربے کی روشنی میں سکھاؤں گی۔ ایک گندم کے کھیت میں جاؤ اور وہاں سے گندم کا ایک ایسا خوشہ توڑ کر لاؤ جو تمہیں سب سے بڑا اور شاندار لگے پر ایک شرط ہے کہ ایک بار آگے چلے گئے تو کھیت میں واپس جا کر کوئی پرانا گندم کا خوشہ نہیں توڑ سکتے،مثال کے طور پر تم نے ایک بہت بڑا خوشہ دیکھا لیکن تمہیں
لگے کہ ابھی اتنا کھیت باقی پڑا ہے اور تم اس کو چھوڑ کر آگے نکل جاتے ہو اور آگے کوئی خوشہ اس جتنا بڑا نہیں ملتا تو اب تم واپس لوٹ کر اس والے کو نہیں لے سکتے۔وہ گیا اور بغل والے کھیت میں چھانٹی کرنے لگا، ابھی دیکھ ہی رہا تھا کہ چوتھائی کھیت میں چھانٹی کر کے اس کو بہت سے بڑ ے بڑے گندم کے خوشے نظر آئے لیکن اس نے ان میں سے کسی کو چننے کے بچائی سوچا کہ ابھی اتنا کھیت باقی پڑا ہے اس میں اس سے بھی بڑے مل جائیں گے، جب اس نے سارا کھیت دیکھ لیا تو آخر میں اس کو سمجھ آئی کہ بالکل شروع میں جو خوشے اس نے دیکھے تھےوہی سب سے بڑے بڑے تھے اور اب وہ واپس تو جا نہیں سکتا تھا، سو وہ اپنی میڈم کے پاس خالی ہاتھ واپس لوٹ آیا۔ اُس کی میڈم نے پوچھا کہ کدھر ہے سب سے بڑا گندم کا خوشہ، وہ بولا کہ میں آگے نکل گیا تھا اس امید میں کہ شاید کوئی اور بہتر والا مل جائے گا مگر جب تک سمجھ آیا ، میں آگے آگیا تھا اور واپس تو نہیں لوٹ سکتا تھا نا۔ اس کی میڈم نے بولا کہ بیٹے سمجھ جاؤ کہ یہ معاملہ ہی محبت میں ہوتا ہے، آپ جوان ہوتے ہو، کم سن اور پر جوش بہتر سے بہتر کی تلاش میں ایک عمر گزار دیتے ہو تو پتہ چلتا ہے کہ جو بیچ میں چھوڑ دیے تھے وہی لوگ اصل میں بہت انمول تھے لیکن اب آپ ان کو واپس حاصل نہیں کر سکتے تو پچھتاتے ہو۔ اب ایک کام کرو ساتھ والے چھلی کے کھیت میں جاؤ
اور ادھر سے سب سے بڑی چھلی لے کر آؤ جو تمہیں مطمئن کر سکتی ہو۔وہ گیا اور لگا مکئی کے کھیت کی چھانٹی کرنے۔ ابھی تھوڑا ہی کھیت دیکھا تھا کہ ایک درمیانی چھلی اس کو ٹھیک لگی اور اس نے سوچا کہ پھر پہلے والی غلطی نہ کر بیٹھوں، تو وہ اسی کو لے آیا۔میڈم نے بولا اب کی بار آپ خالی ہاتھ نہیں لوٹے؟ اس نے بولا، مجھے لگا کہ اس سے بڑی بھی ہوں گی مگر میرے لیے یہی بہتر تھی
اور اگر آگے اس سے بھی چھوٹی ہوتیں تو میں واپس بھی تو نہیں لوٹ سکتا تھا نا۔میڈم بولی: یہ ہے شادی کا معاملہ، جو آپ کو ایسی لگے کہ یہ مجھے مطمئن کر رہی ہے، اس کا سب سے شاندار ہونا ضروری نہیں، اور یہ بات ہمیشہ آپ کو آپ کی ماضی کی محبتوں کے تجربے سکھاتے ہیں۔ اب آپ سمجھے کہ محبت اور شادی میں کیا فرق ہوتا ہے۔