سائنسی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کائنات کو تخلیق ہوئے تقریباً بیس ارب سال ہو گئے ہیں۔ کائنات کو موجودہ صورت کی کائنات بننے میں تقریباً تین ارب سال صرف ہوئے۔ کائنات کی لامحدودیت کے بارے میں سائنس اس حقیقت کا دعویٰ کرتی آئی ہے کہ کائنات میں تقریباً ایک سو ارب سے زیادہ کہکشائیں ہیں اور ہر کہکشاں میں ایک ارب سے زیادہ ستارے و سیارے ہیں۔ بعض صرف پانی کے بلبلے کے برابر ہیں جبکہ بعض اتنے بڑے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک میں سو سورج سما سکتے ہیں۔ کائنات میں کرہ ارض کے شمسی نظام سے پرے دوسری کہکشاؤں میں ایسے کئی ستارے و سیارے موجود ہیں۔ بعض ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کائنات میں کہکشاؤں کا شمار ناممکن ہے اور اس طرح کہکشاؤں میں کی تعداد کا بھی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔
انسانی زندگی ہمیشہ کسی کام کے ہونے اور نہ ہونے کی خواہش میں گزر جاتی ہے۔ انسا ن کے سارے تفکرات و اندیشے اسی خواہش کے اردگرد گھومتے ہیں۔ انسان جو ضروریات و احساسات کا ازلی و ابدی غلام ہے ہمیشہ سے اس فکر میں مبتلا رہتا ہے کہ وہ اپنی کسی مخصوص خواہش کو کس طرح پایہ تکمیل تک پہنچائے۔ انسان کی اس فکر مندی سے انسان کے اعتقادات اور شبہات نے جنم لیا ہے۔ شبہ کے اندر خوف و اندیشہ چھپا ہے جبکہ اعتقاد میں اس خوف یا اندیشے کو کم کرنے یا اس کے کم ہو جانے کی حسرت پائی جاتی ہے۔ اگر انسان کے مذہب اور اخلاق کی تاریخ پر نگاہ ڈالی جائے تو کچھ ایسے حقائق سامنے آتے ہیں کہ جن پر جدید سائنسی نظریات کو حیرت ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک حقیقت انسان کا وہ یقین ہے کہ اگر وہ کوئی مخصوص عمل کرے گا تو اس کے مخصوص نتائج برآمد ہوں گے۔ جوں جوں انسان کے مشاہدات میں وسعت پیدا ہوتی گئی توں توں اس کی فکری سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ انسان کے ذہنی و فکری عروج میں مختلف علوم نے اپنا کردار ادا کیا۔
اسلام کے روشن دور میں مسلمانوں نے جہاں دیگر علوم و فنون میں کمال حاصل کیا وہاں علم النجوم کی تحقیقات میں بھی انہوں نے اپنے لئے ایک امتیازی مقام پیدا کیا اور غیرمسلم مؤرّخوں کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا کہ علم نجوم کے متعلق پہلی رصدگاہ یورپ میں مسلمانوں نے قائم کی۔ انہوں نے تمام سیاروں کی فہرست بنائی اور ان کے نام رکھے جو اب تک تبدیل نہیں ہوئے۔ ان کی آراء اور نتائج اس قدر صحیح ہیں کہ زمانہ حال کے ماہرین اور فنِ ریاضی بھی ان کے نتائج سے وقتاً فوقتاً مستفید ہوتے رہتے ہیں۔ تاریخ کے اوراق کو پلٹ کر دیکھیں تو آغاز دنیا کے متعلق مؤرخین نے مختلف آراء پیش کیں۔ سب سے پہلے ماہرین فن اپنی رائے ظاہر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زمین و آسمان آپس میں ملے ہوئے تھے اور ہزارہا برس تک مقام شمس سے آگ کے شعلے نکلتے رہنے کے بعد اﷲ تعالیٰ نے اس کی تقسیم فرمائی۔ اس رائے سے ہم اتفاق کرتے ہیں کیونکہ اﷲتعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں۔
ترجمہ:۔’’کیا ان کافروں نے نہیں دیکھا کہ آسمان و زمین ملے ہوئے تھے پس ہم نے ان دونوں کو جدا کیا۔‘‘ جب اﷲتعالیٰ نے زمین اور آسمان کو اپنے حکم سے جدا کیا تو سیارہ شمس کو ان سب سیاروں کے درمیان قائم کیا اور سیارہ شمس کے اوپر کی جانب تین سیاروں یعنی زحل‘ مشتری‘ مریخ کو اور اس کے نچلی جانب تین سیاروں یعنی زہرہ‘ عطارد‘ قمر کو قائم کیا۔ عالمان نجوم نے سیارہ شمس کے اوپر کی جانب سیاروں کو علوی اور اس کی نچلی جانب جو سیارے واقع ہیں انہیں سفل قرار دیا اور یہ تمام سیارے اپنی اپنی حرکاتِ سعدیت و نحوست کا علیحدہ علیحدہ حکم رکھتے ہیں۔ ماہرین فن نے ان سیاروں کو دنوں سے منسوب کیا ہے اور یہ ہر سیارہ کو ایک دن کا مالک قرار دیا ہے اور یہ فیصلہ بالکل درست ثابت ہوتا ہے۔ کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے کہ
ترجمہ:۔ ’’ہم نے بنایا زمین و آسمان کو چھہ دنوں میں۔‘‘
اور اسی طرح ہر دن علیحدہ علیحدہ شان رکھتا ہے۔ عربی میں نجوم کے لفظی معنی تاروں کے ہیں۔ نجم تارا کو کہتے ہیں اور نجوم جمع کا لفظ ہے۔ ان تاروں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ تارے ہیں جو ایک ہی جگہ کھڑے ہوئے ہوں اور دوسری قسم وہ ہے جو سیر کرتے ہیں۔ ان کو چلتے ہوئے تارے یا سیارے کہتے ہیں۔ اﷲتعالیٰ نے ستاروں کو آسمانی زینت کے لئے قائم کیا ہوا ہے اور سیارگان کی چال سے دن رات کا شمار ہفتوں‘ مہینوں اور سالوں کی گنتی‘ تبدیلی موسم اور نماز کے اوقات معلوم کئے جاتے ہیں۔ ان کا ذکر بھی قرآن پاک میں آتا ہے۔
ترجمہ:۔ ’’داخل کرتا ہے رات کو بیچ دن کے اور داخل کرتا ہے دن کو بیچ رات کے مسخر کیا ہے‘ سورج اور چاند کو‘ ہر ایک مقرر وقت تک چلتے ہیں۔‘‘ ویسے علم نجوم کا چرچا مصر‘ بابل‘ نینوا میں شروع ہوا اور سب سے پہلے یونان میں فیثاغورت اور اس کے شاگردوں نے افلاک کا پورا تصور قائم کیا اور یہ ظاہر کیا کہ سیارے اور ستارے کڑوں میں جڑے ہوئے ہیں اور یہ کڑے ایک دوسرے کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ ان کے بعد ان کے نظریئے کی مشہور فلسفی ارسطو نے بھی تصدیق کی۔ علاوہ ازیں دوسری صدی قبل مسیح علوم فلکیات کا بہت بڑا عالم ہسپارکس نے افلاک کے نظریئے کو ترقی دے کر سیارگان کے حالات کا پتہ چلایا اور سیارگان کی حرکات وغیرہ کی فہرست مرتب کی۔ اسی طرح شہر بغداد کی بنیاد رکھی تو 762ء میں عباسی خلیفہ منصور نے دیگر علوم کے ساتھ ساتھ علم نجوم کو دوبارہ زندہ کیا۔ اس وقت اس نئے شہر کی بنیاد قائم کرنے والوں میں دو نجومی بھی شامل تھے۔ ایک کا تعلق ایران سے تھا اور دوسرے کا تعلق ہند سے تھا جس کا نام مانک یا مانکہ تھا۔ بغداد پہنچ کر خلیفہ منصور کے دربار میں حاضر ہوا اور علم نجوم کی ایک کتاب پیش کی۔ جس کا نام ’’سنہ ہند‘‘ تھا۔ اسی طرح خلیفہ ہارون الرشید کے عہد میں المحبطی کتاب کا ترجمہ ہوا اور اسی طرح کتابوں کا سلسلہ جاری و ساری رہا۔ 1030 ء میں سلطان محمود غزنوی کے عہد میں ابوریحان البیرونی جو اس زمانے کے مشہور سائنسدان و منجموں میں شمار کئے جاتے تھے‘ انہوں نے بھی ایک کتاب تحریر کی‘ اسی طرح یورپ کے مشہور مؤرخ مسٹر تھامس بکل اپنی کتاب ہسٹری آف سیولائیزیشن آف یورپ میں یہ تحریر کرتے ہیں کہ اہل عرب نے علم الرمل و نجوم کو ترقی دے کر سائنس کے درجہ تک پہنچا دیا ہے۔ اس سے ستاروں اور برجوں کا ہونا ثابت ہو چکا ہے۔ لیکن تعداد اور دائرہ مفسرین اور عالمان نجوم نے اپنے تجربات سے ثابت کئے ہوئے ہیں اور یہ بھی لکھا ہے کہ یہ برج انقلاب سے عروج و زوال وغیرہ کی گواہی دیتے ہیں۔ ہر برج کے علیحدہ علیحدہ نام رکھے گئے ہیں۔
مختلف زبانوں میں مختلف نام ہیں جیسا کہ اردو زبان میں برج حمل‘ برج ثور‘ برج جوزا‘ برج سرطان‘ برج اسد‘ برج سنبلہ‘ برج میزان وغیرہ۔ یاد رہے کہ یہی نام عربی اصطلاح میں بھی لئے جاتے ہیں۔ جبکہ انگریزی زبان میں ایرس‘ ٹورس‘ جمینی‘ کینسر‘ لیو وغیرہ ہیں۔ عالمان نجوم نے اس کی تاثیر و خاصیت کے فرق کو بھی واضح کیا ہے۔ جس سے کسی بھی انسان کی زندگی میں پیدا ہونے والے حالات و واقعات حتیٰ کہ ماضی‘ حال اور مستقبل کے اندازے لگائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہرطاق برج کو نحوست کا درجہ دیا گیا ہے۔ مثلاً حمل‘ جوزا‘ اسد میزان قوس دلو یہ سب نحوست کے دائرے میں آتے ہیں۔ جبکہ برج ثور‘ سرطان‘ سنبلہ‘ عقرب‘ جدی‘ حوت کو سعدیت کا رتبہ دیا گیا ہے۔ اسی طرح یاد رہے کہ برج جوزا‘ برج سنبلہ‘ برج قوس اور برج حوت کو ذوجدین کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ ذوجدین سے مراد نہ نحس اورنہ سعد۔ سوائے شمس اور قمر کے دیگر پانچ سیارگان کبھی سیدھی اور کبھی الٹی رفتار میں چلتے ہیں۔ ان پانچ سیارگان کو خمسہ متحیرہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ چوں کہ سیارگان کی آپس میں باہمی کشش ہے۔ جب بھی ان پانچ سیارگان سے کوئی سیارہ دوسرے سیارے کے قریب جاتا ہے تو دوسرا سیارہ پہلے سیارے کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور وہ سیارہ اس سے پیچھے کو ہٹ جاتا ہے۔ اس کی اس سیدھی چال کو حالت ’مستقیم‘ کہا جاتا ہے اور الٹی چال کو ’رجعت‘ کہا جاتا ہے۔ اسی طرح ہم جب زائچہ کو پڑھتے ہیں تو بعض لوگوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ آپ کا سیارہ رجعت میں ہے‘ یعنی اس کی پوری قوت میں کمی واقع ہو گئی ہے اور ان کے تاثرات میں کمی واقع ہو گئی ہے۔اسی طرح ماہرین نجوم کے نزدیک سیارگان کی دوستی اور دشمنی بھی ہے اور ان میں عہدے داری اور منصب داری بھی پائی جاتی ہے۔ سیارگان کاآپس میں فاصلہ بھی شمار کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں عالمان نجوم نے سیارگان کی مختلف اشکال کو واضح کیا ہے اور ان کے ساتھ ساتھ بروج کے نشانات کو بھی متعارف کرایا ہے اور سب سے ضروری سیاروں کی رفتار مقرر ہے۔ کسی بھی انسان کی زندگی میں بدلتے حالات و واقعات انہی سیاروں کی رفتار اور حرکات پر مبنی ہیں۔ بروج میں سیارگان کی حرکت کی رفتار مقرر ہے اور ہر سیارہ اپنی منزل کو مقررہ مدت میں عبور کرتا ہے۔ سیارگان جس بھی بروج میں سفر کرتے ہیں ان میں مختلف منازل ہیں جو تعداد میں 28 میں ان کو انگریزی زبان میں ڈگری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
ازروئے نجوم زائچہ ولادت اس چیز کا نام ہے کہ دنیا میں جب انسان پیدا ہوتا ہے تو نجومی لوگ اس کی تاریخ ولادت اور وقت پیدائش کے لحاظ سے اس کا زائچہ قلم بند کرتے ہیں اور اس کی پیدائش کے وقت جو بروج معلوم کیا جائے اسے طالع برج یعنی جنم لگن کہتے ہیں ۔ باقی برجوں کو بالترتیب بارہ گھروں میں درج کر کے اس تاریخ کے لحاظ سے جو جو سیارہ جس جس برج میں واقع ہو‘ اسے اسی برج میں لکھ دیاجاتا ہے۔ جسے ہندی میں ’جنم کنڈلی‘ کہا جاتا ہے اور انگریزی زبان میں ہُوروسکوپ اور نیٹی ویٹی Nativity کہتے ہیں۔ اس کی مدد سے اہل فن بچے کی زندگی میں آنے والے حالات و واقعات معلوم کرتے ہیں۔ زائچہ وہ ہے جو پیدائش کے دن اور اس پیدائش کے وقت کی شان کے لحاظ سے لکھا جاتا ہے اور یہ امر کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک کو ایک پر فضیلت کا درجہ عطا فرمایا ہے۔
جس طرح مہینوں میں ماہ رمضان المبارک کو افضل مانا گیا ہے اور دنوں میں جمعہ کو احسن سمجھا گیا ہے‘ اسی طرح وقتوں اور ساعتوں کو ایک دوسرے پر فضیلت حاصل ہے۔ اسی طرح یہ امر بھی کسی سے چھپا نہیں کہ کسی بھی سیارہ کی قوت یکساں نہیں رہتی۔ کیونکہ ایک برج 30 درجہ کا مالک قرار دیا گیا ہے۔ جب کوئی سیارہ کسی برج میں داخل ہوتا ہے تو ایک سے چھہ درجہ تک اس کی حالت نوزائیدہ بچے جیسی ہوتی ہے اور7 سے 12 درجہ تک مثل نو عمر بچے کی طرح اور 13 تا 23 درجہ تک پوری قوت کا مظاہرہ کرتا ہے۔ 23 تا 30 درجہ تک سیارے کی قوت مثل بوڑھے آدمی کی طرح ہوتی ہے یعنی اس کے اثرات کمزور پڑ چکے ہوتے ہیں۔ جب ایک یا زیادہ سیارگان ایک ہی برج میں سفر کر رہے ہوں تو وہاں یہ لازمی ہو جاتا ہے کہ اس برج کے مالک سیارے کو دیکھیں کہ یہ سیارگان اس برج کے مالک سیارے کے دوست ہیں یا دشمن۔ اگر دوست ہیں تو سعد زیادہ‘ اگر دشمن ہیں تو قوت تاثیر میں کمی واقع ہو گی۔ اگر مساوی ہو تو نہ سعد نہ نحس۔ یہ بھی دیکھنا لازمی ہے کہ آیا سیارگان رجعت میں ہیں یا مستقیم حالت میں۔ اگر مستقیم حالت میں ہیں تو طاقت مکمل مانی جائے گی اور اگر رجعت میں تو نصف۔ اگر کوئی سیارہ غروب ہو تو اس کی طاقت ہی ختم ہوتی ہے اسی طرح چند ایک نحس یا سعد سیارگان کا ایک گھر میں اکٹھے ہونا اچھا بھی ہے اور برا بھی۔ مثال کے طور پر سیارہ شمس جس گھر میں حرکت کر رہا ہو۔ اس برج میں جتنے بھی سیارگان ہمراہ ہوں ان کی قوت ختم ہوتی ہے۔ صرف 2 سیارگان کی قوت شمس کے ہمراہ قائم رہتی ہے۔ سیارہ زحل اور سیارہ زہرہ دیگر کسی کی نہیں۔
علم نجوم ایک وسیع علم ہے جس کے ذریعے انسانی زندگی کے بارے میں بآسانی حساب لگایا جا سکتا ہے اور اس کے گرد گھومتے بدلتے حالات و واقعات کو بآسانی پڑھا جاسکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ اس علم کو صحیح معنوں میں سمجھا جائے اور اس کے ذریعے اپنی زندگی کو صحیح راہ پر چلایا جا سکے۔ (بشکریہ حلال میگزین)